*
نئی دہلی ۱۵ ؍اپریل: جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام اس کے صدر دفتر میں ایک اہم اجلاس میں ممتاز ماہرین قانون، علمائے کرام، دانشوروں اور سماجی رہنماؤں نے متفقہ طور پر وقف ایکٹ 2025 کی متعدد خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اسے وقف املاک کےلیے خطرہ قرار دیا۔ مقررین نے زور دیا کہ وقف کا تحفظ صرف قانونی نہیں بلکہ ایک مذہبی، اخلاقی اور سماجی ذمے داری بھی ہے۔ماہرین قانون نےاس قانون کو عبادت گاہ ایکٹ 1991کو کمزور و بے اثر کرنے والا بھی بتایا ۔
اپنے افتتاحی خطاب میں صدر جمعیۃ مولانا محمود اسعد مدنی نے تمام مہمانانِ کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جمعیۃ نے وقف کے تحفظ کے لیے آزادی سے قبل اور بعد میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ 1937 میں شریعت ایپلیکیشن ایکٹ اور بعد ازاں وقف ایکٹ 1954 اور 1995 میں جمعیۃ کی سفارشات کو شامل کیا گیا، لیکن موجودہ حکومت کسی بھی دینی و قانونی ادارے کی رائے کو خاطر میں نہیں لائی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ موجودہ مسودہ قانون وقف کی روح اور اس کے مقاصد کو مجروح کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف قانونی و آئینی سطح پر اس کی مخالفت کی جائے، بلکہ عوام میں بیداری بھی پیدا کی جائے۔
ماہر وقف اور سابق آئی آرایس افسر سید محموداختر نے کہا کہ نئے قانون کا ڈھانچہ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی جیسا ہے، جس میں شرعی اصولوں کی کوئی جھلک نہیں ہے۔ایم اقبال اے شیخ سابق رکن، سینٹرل وقف کونسل نے کہا کہ دفعہ 40 اور دفعہ 83 کے ذریعے وقف بورڈ اور وقف جائیدادوں کی قانونی حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایڈوکیٹ پیرزادہ فرید احمد نظامی سجادہ نشین، درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء نے کہا کہ دفعہ 3 میں پانچ سالہ مسلم کی شرط اور دفعہ 3D میں آثار قدیمہ کے تحت آنے والی املاک سے وقف حیثیت کی منسوخی جیسے نکات اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں۔افضال محمد صفوی فاروقی نائب سجادہ نشین، درگاہ صفی پورنے کہا کہ قانون میں خانقاہوں و درگاہوں کے انتظام سے متعلق رہنما اصولوں کی عدم موجودگی اور دیہی علاقوں میں عوامی لاعلمی ایک بڑا چیلنج ہے۔سید محمد علی الحسینی (سجادہ نشین، گیسو درازؒ)نے کہا کہ وقف املاک کی دستاویزات کی فوری تیاری ضروری ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد نے کہا کہ یہ قانون ظاہری طور پر کچھ اور ہے، اندرونی طور پر کچھ اور ہے ،اس لیے ہر انفرادی جائیداد کے تحفظ پر توجہ ضروری ہے۔ایڈوکیٹ رؤف رحیم نےکہا کہ؛ انفرادی کوششوں سے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائے گی ۔انھوں نےنئے قانون کے سلسلے میں ملی بیداری کو خوش آئند بتایا۔
ایڈوکیٹ محمد طاہر حکیم گجرا ت نے کہا کہ وقف جائیداد کی حیثیت ختم کرنے کی کوشس قابل تشویش ہے۔ایم جے اکبر ریٹائرڈ آئی ایف ایس نے کہا کہ وقف کو ختم کرکے ٹرسٹ کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے جو وقف نظام کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔
تجاویز اور عملی اقدامات پر توجہ دلاتے ہوئے مولانا صدیق اللہ چودھری صدر جمعیۃ، مغربی بنگال نے مشورہ دیا کہ وکلا کی ٹیم تشکیل دے کر ان کے رابطہ نمبرات شائع کیے جائیں تاکہ عوام اپنے علاقوں کی وقف جائیدادوں کے تحفظ میں ان کی مدد حاصل کرسکیں۔حاجی محمد ہارون صدر، جمعیت مدھیہ پردیش نے مشوردیا کہ سو شہروں میں چھوٹے پروگرام کر کے عوامی بیدار ی پیدا کی جائے۔حافظ ندیم صدیقی صدر، جمعیۃ مہاراشٹرنے کہا کہ نوجوانوں کی ٹیمیں بنا کر زمینی سطح پر ریکارڈ کی جانچ و تحفظ کا کام کیا جائے ۔پروفیسر نثار انصاری جنرل سکریٹری، جمعیۃ گجرات نے کہا کہ تمام ریاستوں میں سب کمیٹیاں بنا کر دستاویز سازی کا عمل تیز کیا جائے۔ حافظ پیر خالق صابر جمعیۃ تلنگانہ نے کہا کہ وقف کو سب سے زیادہ نقصان اپنوں سے ہوا ہے، تلنگانہ و آندھرا پردیش میں محض 23,000 ایکڑ زمین باقی بچی ہے جب کہ کل جائیداد پچاس ہزار سے زائد ہے ۔مولانا ارشد میر صدرجمعیۃ سورت نے مشورہ دیا کہ وقف کے تحفظ کے لیے بیداری مہم شروع کی جائے۔سیف علی نقوی (ماہر تعلیم)نے کہا کہ یوٹیوبرز کا استعمال کرتے ہوئے وقف کے سلسلے میں پیدا کردہ غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔ اس موقع پر قانونی امور کے نگراں مولانا نیاز احمد فاروقی نے تفصیلی قانونی نکات پیش کیے۔ ناظم عمومی جمعیۃ، مولانا محمدحکیم الدین قاسمی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
اجلاس کی نظامت اویس سلطان نے کی۔ تلاوتِ کلامِ پاک و نعت شریف سے اجلاس کا آغاز قاری احمد عبداللہ نے کیا۔ اس اجلاس میں دیگر شرکاء میں اکرم الجبار خان (کنوینر، وقف کمیٹی جمعیۃ علماء ہند)سید محمد یاد اللہ حسینی جانشینِ سجادہ نشین، روضہ خرد، گلبرگہ شریف بھی شامل رہے