تجزیہ:انوشی گپتا
جب بھوک بے قابو ہو جاتی ہے… انسانیت مر جاتی ہے اور یہی کچھ غزہ میں ہو رہا ہے۔ اب یہاں بھوک بموں سے پہلے جانیں لے رہی ہے۔ یہ ٹرک جو کبھی راحت کی امید لاتے تھے آج موت کے کھیتوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جیسے ہی ٹرک پہنچے بھوکے ہجوم نے انہیں گھیر لیا اور لمحے بھر میں راشن، پانی اور ادویات سے لدا سامان لوٹ لیا۔ غزہ کے حالات اب اس قدر نازک ہو چکے ہیں کہ بچوں کے پاس روٹی نہیں، ماؤں کے آنسو نہیں اور بزرگوں کے پاس کوئی امید نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ ‘غزہ کے لیے یہ بدترین وقت ہے۔’ انہوں نے اسرائیل سے درخواست کی کہ وہ کم از کم امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں کو نہ روکے لیکن زمینی صورتحال کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ گزشتہ جمعہ کو اسرائیلی حملوں میں کم از کم 71 افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ تعداد یہیں نہیں رکتی۔ درجنوں زخمی، کئی لاپتہ ہیں اور ٹرکوں کا انتظار کرنے والی آنکھیں اب پتھر ہو چکی ہیں۔ غزہ کی گلیوں میں نہ صرف ملبہ پڑا ہے بلکہ وہاں امید کی قبریں بھی کھودی گئی ہیں۔ جہاں ماں باپ بھوک سے نہیں اپنی بے بسی سے ٹوٹتے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں کے 75 سے زائد ٹھکانے تباہ کر دیے ہیں لیکن جب ہسپتال، سکول اور پناہ گزین کیمپ بھی ملبے میں تبدیل ہو جائیں… تو ایسی صورت حال کا کیا فائدہ؟
غزہ میں یہ جنگ اب صرف سرحدوں کی نہیں رہی… یہ زندگی اور ضروریات کی جنگ بن چکی ہے۔ اور جب روٹی اور پانی کی ضرورت ہو تو ہتھیاروں سے نہیں انسانیت سے جواب دینا چاہیے۔ گزشتہ 19 ماہ سے جاری یہ جنگ اب صرف گولیوں اور میزائلوں کی نہیں رہی۔ یہ جنگ اب پیٹ اور زندگی کی جنگ بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں تقریباً 500,000 افراد غذائی قلت کے دہانے پر ہیں اور اگر صورتحال نہ بدلی تو پانچ میں سے ایک شخص اس بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غزہ میں تقریباً 21 لاکھ افراد کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کہانی کی ایک اور تصویر بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق غزہ سے صرف 40 کلومیٹر کے فاصلے پر اسرائیل، مصر اور اردن کے گوداموں میں ضروری اشیائے خوردونوش کا ذخیرہ ہے لیکن غزہ کے اندر ڈبلیو ایف پی کے گودام خالی ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر بیکریاں اور چندے سے چلنے والے کچن بند ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر انٹوئن رینارڈ کے مطابق پہلے ہم 10 لاکھ لوگوں کو خوراک فراہم کرتے تھے، اب ہم بمشکل 2 لاکھ افراد تک پہنچ پا رہے ہیں۔ صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں بھوک اور قحط کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے غزہ کو خوراک کی فراہمی پر پابندی فوری طور پر ختم کرے۔ ویسے ان مطالبات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے 13 مئی کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ حماس کو تباہ کرنے کے لیے یہ جنگ جاری رکھیں گے۔بشکریہ این ڈی ٹی وی