ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے بدھ کے روز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے تبصروں میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کی علماء کی سٹیبلشمنٹ کے نام خط "جلد ہی ایک عرب ملک تہران کو پہنچائے گا۔”
ٹرمپ نے کہا کہ انھوں نے ایک خط بھیجا تھا جس میں ایران کو نئے جوہری معاہدے پر مذاکرات میں شامل ہونے پر زور دیا گیا۔ اس کے بعد ایران کے راہنمائے اعلیٰ علی خامنہ ای نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ تہران کو زبردستی مذاکرات کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
ایران کے جوہری پروگرام پر بدھ کے روز بند کمرے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے عراقچی نے کہا، یہ اجتماع ایک "نیا اور عجیب و غریب عمل تھا جو اس کی درخواست کرنے والی ریاستوں کی خیر سگالی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔”ایران کی جانب سے ہتھیاروں کے درجے کے قریب یورینیم کے ذخیرے میں توسیع کے معاملے پر اجلاس کی درخواست کونسل کے 15 میں سے چھے ارکان فرانس، یونان، پاناما، جنوبی کوریا، برطانیہ اور امریکہ نے کی تھی۔
عراقچی نے کہا کہ ایران جلد ہی جوہری معاہدے میں شامل یورپی طاقتوں فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مذاکرات کا پانچواں دور کرے گا اور اس نے جمعے کے روز بیجنگ میں دیگر ارکان روس اور چین کے ساتھ بھی ملاقات کی تصدیق کی۔