تحریر:انیس احمد مدنی
سوشل میڈیا پر آج کل یہ مسئلہ چھایا ہوا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے مقامی زبانوں میں اذان سنا کر پھربلاؤ۔ لاؤڈ اسپیکر کے عربی میں اذان دینے سے برادران وطن میں اسلام کی دعوت پہنچانے میں کافی آسانی ہوگی۔اس سلسلے میں چند باتیں پیش خدمت ہیں۔
اذان کے کلمات وحی الہی پر مشتمل ہے :ترجمہ اس کا متبادل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس میں کسی نوع کی تبدیلی کی گنجائش ہے ( لا تبدیل لکلمات اللہ )اذان شعائر اسلام میں سے ہے جو اسلام کی ہمہ گیریت و عالمیت کا ایک مظہر ہے ۔ ترجمہ سے اس کی یہ حیثیت مٹ جائے گی ۔
روئے زمین پر پائی جانے والی جملہ زبانیں مخلوق ہیں ،جبکہ اذان کے کلمات اللہ تعالیٰ کے کلمات ہیں۔ اذان سنتے ہی ایک مومن کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کا رب اسے بلا رہا ہے اور وہ اپنے خالق کی کبریائی بیان کرنے اور اس سے محو گفتگو ہونے کے لئے مسجد کی تیاری میں لگ جاتا ہے۔ ترجمہ سے یہ احساس متأثر ہوگا ۔( یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْئا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ )اذان کے کلمات میں جو جامعیت، وسعت، عالمگیریت، نغمگی تأثیر اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس سے اہل ایمان کے ایمان میں پختگی اور اعداء اسلام کے دلوں میں ھیبت طاری ہوتی ہے اور یہ چیز ترجمہ سے ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی ۔
مقامی زبان میں اذان سنانا اور پھر عربی میں اذان دینا اس سے اذان کی اہمیتگھٹے گی جو شعائر اسلام کی تعظیم کے حکم کے منافی ہے (وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ )مقامی زبان میں اذان سنانا اجماع سنت کے خلاف ہے اور اجماع سنت سے ہٹنا خسارہ اور گھاٹے کا سودا ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے ( وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ) مقامی زبان میں اذان سنانے کی تجویز سب سے پہلے دربار اکبری کے معتبر اور منحرف عالم دین ’ فیضی‘ نے پیش کی تھی اور پھر بیسویں صدی میں خلافت اسلامیہ کی قباء چاک کرنے والے کمال اتا ترک نے عربی میں اذان کو ممنوع قرار دے کر ترکی زبان میں اسکو رائج فرمایا ۔مقامی زبان میں اذان کو اگر رواج دیا گیا تو پھر مسلکی لحاظ سے اذان کے اتنے ترجمے منظر عام پر آئیں گے کہ اس کا دروازہ بند کرنا نا ممکن ہو جائے گا کوئی کہے گا ’ ایشور ‘ کی جگہ ’ پرمیشور ‘کا لفظ موزوں ہے تو کوئی ’ ایشور‘ پر اصرار کرے گا یہی حال ہر ہر کلمہ کا ہوگا ۔
اذان کے کلمات کو دہرانا ظاہریہ کے نزدیک واجب تو جمہور کے نزدیک مستحب ہے۔ تو کیا مقامی زبان میں سنائے گئے کلمات کا جواب دینا بھی مستحب ہو گا۔
( إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ )امت تو ہزاروں ٹکڑوں اور جزیروں میں بٹی ہوئی ہے ۔ نماز و اذان سے اس کی وحدت کا عمومی اظہار ہوتا ہے۔ خدارا ‘ اس کی باقی ماندہ وحدت پر دلالت کرنے والی اشیاء میں کسی نوع کا اجتہاد نہ کیا جائے ۔