ملاحظات :(مولانا)عبدالحمید نعمانی
اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا مطلب، بھارت کی جاری روایت و پالیسی سے کھلا انحراف ہے، یورپی و مغربی ممالک كى تاجرانہ و مفاد پرستانہ ذہنیت کے تحت تمام کاموں کو کرنے کے مقاصد سے پوری دنیا واقف ہے ،وہاں انسانیت و انصاف اور اخلاقی اقدار کے لحاظ کی کوئی زیادہ اہمیت و قدر نہیں ہے، جب کہ مشرق میں انسانیت وانصاف، اخلاقی اقدار، اور ایک برتر روحانی و مذہبی نصب العین کی بڑی اہمیت ہے، اس فرق سے واقف ہونے کے باوجود مشرق کے ایک بڑے حصے پر بھی مغربی و یورپی استعمار کے افکار و اعمال اور مفاد پرستانہ ذہنیت کے بد اثرات بڑی تیزی سے مرتب ہو چکے ہیں، اور ان کا دائرہ روز بروز تیزی سے وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے ، مشرق ممالک میں سے بھارت کا ایک نمایاں نام ہے، اس نے بھی اخلاقی اقدار اور ان پر مبنی سیاسی و سماجی روایات و اعمال کو بہت اہمیت دی ہے، گر چہ یہاں بھی ایک بنیاوادی تاجرانہ ذہنیت، سماج پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی رہی ہے، تاہم اسے عام اخلاقی و روحانی روایات و کردار کو پوری طرح ختم کر کے آگے بڑھنے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے،
ملک کی آزادی سے پہلے اور بعد کے دنوں میں بھی بھارت کی روایت و پالیسی مظلوموں، متاثر ین اور کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہونے کی رہی ہے، جس کے تحت عدم تشدد اور ناجنگ معاہدے کوہر ممکن طرح سے اوپر رکھتے ہوئے تیسری دنیا اور عالمی برادری میں ایک موثر کردار کی شکل میں خود کو سامنے لانے اور رکھنے کی رہی ہے،تمام تر مغربی و صیہونی کوششوں اور دائیں بازو مسلم مخالف عناصر کے تمام تر دباؤوں کے باوجود سبھی سرکاروں نے مذکورہ پالیسی و روایت پر چلنے کے عزم کو ترک نہیں کیا، حتی کہ جنتا پارٹی اور بی جے پی قیادت والی سرکاروں نے بھی مغربی و یورپی استعمار اور مشرق وسطی خصوصا فلسطین کے متعلق جاری پالیسی میں کوئی جوہری وبنیادی تبدیلی نہیں کی، بھارت ہمیشہ جنگ بندی، امن اور انصاف و انسانیت کے ساتھ کھڑا رہا ہے، آزادی کے بعد دہائیوں تک اس کی پالیسی، جارح، جارحیت، تشدد پسندی اور جنگ کے خلاف رہی ہے، لیکن مبینہ سیکولر سمجھی جانے والی پارٹیوں کے انتشار و ضعف اور ہندوتو وادی اور صیہونی کوششوں کی موثر مزاحمت سے قاصر ہونے کے سبب ملک کی انصاف و انسانیت پر مبنی جاری خارجی اور داخلی پالیسی اور ایک مخصوص طبقے آر ایس ایس، ہندو مہا سبھا اور ان کے زیر اثر سر گرم عمل سیاسی پارٹیوں کی پالیسی و ذہنیت حاوی ہوتی چلی گئی، فلسطین اور فلسطینی، عربوں اور اسرائیل اور صیہونی ریاست کے قیام میں ظلم جارحیت کے معاملے میں شروع سے بھارت کی پالیسی عرب، فلسطینیوں کے ساتھ ہو کر ان کو گھر واپسی اور مقبوضہ آراضی کو اسرائیل سے خالی کرانے کی رہی ہے، اس تعلق سے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینی عربوں کی زمین خالی کرنی ھوگی، بعد کے دنوں میں بدلتے حالات میں مسئلے کے عملی حل کی شکل دو ریاستی قیام کے موقف کو اختیار کیا گیا، لیکن اس کا مطلب قطعی نہیں ہے کہ غاصب و جارح طاقت کے پلڑے میں پورا وزن ڈال کر مظلوموں و متاثرین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں و نا انصافیوں کو خود حفاظتی کے نام پر نظر انداز کر دیا جائے، نسل کشی اور جنگ کے خلاف امن کے نام پر مغربی و یورپی طاقتوں کے خیمے میں چلا جانا، بھارت کی امن پسندانہ عدم تشدد اور ناجنگ پالیسی کے قطعی خلاف ہے، یہ کسی پارٹی یا اس کے زیر قیادت قائم سرکار کی پالیسی و نظریہ ہو سکتا ہے نہ کہ بھارت کی پالیسی، سرکار اور ملک کے درمیان فرق ضروری ہے، ایک مدت سے دائیں بازو کے عناصر، سرکار کو دیس اور ایک کمیونٹی ایک مخصوص طبقے کے فکر و عمل اور ہندوتو کو ہندستان اور بھارت باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں، بی جے پی، مودی سرکار بھی خود کو دیس باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے
،اپنی مخالفت کو بھارت ورودھی اورملک مخالف اور ہندستانی راشٹر، راشٹر واد کی مخالفت قرار دینے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے، آئین مخالف، سرکار کے اقدامات کی مخالفت کو ملک کی مخالفت کے ہم معنی قرار دینے کا کام کر رہی ہے، مبینہ نیشنل میڈیا کو کنٹرول میں لے کر ملک میں ایک الگ طرح کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، پہلے فلسطین کی حمایت و تائید کو جرم یا ملک مخالف قدم قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تھی، اب ایسا کر کے بھارت کی جاری روایت و پالیسی کے خلاف کام کر کے اس کی تصویر بگاڑنے اور سمت کو بدلنے کی کوشش شروع کر دی گئی ہے، جب کہ کوئی بھی محب وطن ہندستانی اسے پسند نہیں کرتا ہے کہ بھارت کی شبیہ بگڑ جائے اوردنیا میں پیغام جائے کہ وہ جارح، ظالم غاصب اورجنگ و تشددکے ساتھ کھڑاہے ، اس سلسلے میں سونیا گاندھی، یشونت سنہا، مولانا محمود مدنی وغیرہم نے اس سلسلے میں بجا طور پر اپنا احتجاج و اعتراض درج کرایا ہے، جنگ و جارحیت کے ساتھ ہونے کی گوتم، گاندھی، آزاد رح مدنی رح کے بھارت میں کوئی گنجائش و جگہ نہیں ہے، بھارت نے ہمیشہ سے ناجنگ معاہدے اور عدم تشدد کی تجویز کی حمایت کی ہے، جارحیت و جنگ کے معاملے میں غیر جانبدار رہنا کوئی بہتر و نتیجہ خیز اور بامعنی عمل قرار نہیں پا سکتا ہے، اسے امن اور امن پسندی کا نام دینا، انصاف و دیانت نہیں ہے، چاہے فلسطین کا معاملہ ہو یا ایران کی بات ہو، سب کے معاملے میں جارح و حملہ آور، اسرائیل ہے، وہ کسی بھی ملک یا تنظیم کو اپنے وجود کے لیے خطرہ قرار دے کر حملہ کر دیتا ہے، حالاں کہ وہ خود پورے خطے کے لیے بڑا خطرہ اور غارت گر امن بنا ہوا ہے، تو کیا اس پر کسی بھی پڑوس یا متعلقہ ملک کے لیے، حملہ کرنے کا جواز فراہم ہو جاتا ہے، اس سلسلے میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے حامی ممالک، ناانصافی، غیر برابری اور دوہرے معیار و متضاد راہ و روش پر گامزن ہیں، ایران پر حملہ کر کے ایک بار پھر امریکہ نے اس کا ثبوت دے دیا ہے، وہ اپنے پاس ہر قسم کے تباہ کن ہتھیار و اسلحہ جات رکھنا چاہتے ہیں، انھوں نے بھارت کے ساتھ بھی نا برابری اور دوہرے معیار اپنائے ہوئے ہیں، اس کی مزاحمت کے بجائے ان کے ساتھ کھڑا ہونا بھارت کے کر دار و وقار کے منافی ہے، اسے اقوام متحدہ میں جائز و مناسب درجہ و مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، بھارت نے ایٹمی تجربہ کیا تو اس کے خلاف کئی ساری پابندیاں عائد کر دیں، حالاں کہ امریکہ کے سوا ابھی تک ایٹمی طاقت والے ممالک میں سے کسی نے بھی اپنے مخالف ملک پر، جنگ کی حالت میں بھی ایٹمی ہتھیار کا استعمال نہیں کیا ہے، اسرائیل سمیت کئی ممالک نے ایٹمی معاہدے پر دستخط نہیں کیا ہے، جب کہ ایران نے معاہدے کو ماننے اور ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کی بارہا یقین دہانی کرائی ہے، مختلف مراحل میں بات چیت بھی کی ہے، جب ایٹمی طاقت حاصل کر چکے ممالک امن کے لیے خطرہ نہیں ہیں تو پر امن مقاصد کے لیے یورنیم افزودگی کے عمل کو، دیگر ممالک کے لیے خطرہ دے کر، کسی ملک پر حملہ کرنے کی راہ ہموار کرنے کو جائز کیسے قرار دیا جا سکتا ہے،؟ کسی بھی آزاد، خود مختار ملک پر، کسی دیگر ملک کا اپنی پسند اور پالیسی کو زور زبردستی لادنا، اس کے اقتدار اعلی کو ختم اور ذلیل و رسوا کرنے کے ہم معنی ہے، اس سلسلے میں امریکہ جیسے طاقت ور ممالک اقوام متحدہ جیسے ادارے کو اپنے من پسند مقاصد کے مطابق من مانے طریقے پر استعمال کرتے رہتے ہیں، اپنی مرضی کے بر خلاف اقوام متحدہ کی کسی تجویز اور بات کو امریکہ، اسرائیل، کسی بھی قیمت پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، تیسری دنیا کے ممالک اور دیگر یورپی ممالک کے معاملے میں بھی امریکہ، انصاف و مساوات کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے، دھونس، دھاندلی اور دادا گیری کی راہ پر چلتا رہا ہے، ان کے وسائل کو اپنے فائدے و تفوق کو قائم کرنے اور اس کو بنائے رکھنے میں استعمال کرتا ہے، اس پر متاثرہ ممالک کو متحدہ طور پر، سنجیدہ کوشش کر کے، جاری چکر ویوہ سے نکلنا ہوگا، اس کے بغیر عالمی سطح پر متاثرہ ممالک میں نہ امن و توازن قائم ہو سکتا ہے اور نہ صحیح ترقی و استحکام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، بھارت بھی مذکورہ ممالک کے زمرے میں آتا ہے، اسے اپنے دعوے کے موافق وشو گرو کا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ امریکہ و اسرائیل کی راہ پر چل کر، اپنے دوستوں کو کم سے کم کرتا چلا جائے اور سابقہ روایتی تعلقات کو ختم کر کے اپنی پہلی جگہ چھوڑ دے، اس سے ملک اور عالمی سطح پر ایک الگ قسم کی صورت حال پیدا ہونے کا راستہ ہموار ہوگا، بھارت ایک بڑا ملک ہے، اسے دوسروں کے پیچھے چلنے کے بجائے ماضی کی بہتر پالیسی کے مطابق ان کو اپنے ساتھ لانے اور کھڑا رکھنے پر سنجیدہ توجہ دینا چاہیے، بھارت میں کچھ عناصر جس طرح، اسرائیل کی جارحیت و بربریت اور ناانصافی کے ساتھ خود کو رکھ کر، اس سے یک جہتی کا اظہار اور فلسطین و ایران کے خلاف کھڑے ہونے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے، سوائے مسلم دشمن جذبے کے، یہ بھارت کے اصل جذبہ و روح کے خلاف ہے، یہودی مورتی پوجا کے خلاف، ختنہ کراتے ہیں ،گائے کا گوشت بھی کھاتے ہیں، ان کا بھارت کے ہندوتو وادی عناصر سے کوئی تہذیبی و مذہبی و سماجی رشتہ نہیں ہے، وہ غیر ضروری طور پر اپنی فرقہ پرستی کی تسکین کے لیے ،اسرائیل سے یک جہتی اور ساتھ ہونے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، ان کی بڑی تعداد کو صیہونیت اور فلسطین و اسرائیل کی تاریخ و تہذیب سے واقفیت نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بھارت کی تاریخ و روایت کی بھی صحیح جانکاری نہیں ہے، قوی خدشہ ہے کہ اسرائیل، فلسطین اور ایران کے متعلق بھارت کی قدیم اور آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد سے جاری روایت و پالیسی کو ترک و تبدیلی سے آنے والے دنوں میں دوررس اثرات و نتائج مرتب و برآمد ہوں گے، اس سے ملک کی تصویر اور سمت بدل سکتی ہے، ایران اسرائیل کے معاملے میں شیعہ سنی کے پہلو کو نمایاں کرنا بھی ایک منصوبہ بند عمل کا حصہ ہے، بہت سے جذباتی افراد اس کا حصہ نا سمجھی سے بن جاتے ہیں، بھارت کے اخلاقی اقدار، عدم تشدد، انصاف و انسانیت اور امن پسندی کی پالیسی و روایت کو نظرانداز کر کے صرف کچھ دیگر قسم کے فوائد کو پیش نظر رکھنا، اس کی بہتر شبیہ کو بگاڑنے کا کام کرے گا ،یہ ملک کی اکثریت کے لیے قابل قبول نہیں ہے، صیہونیت میں اخلاقی اقدار کی کوئی اہمیت و قدر نہیں ہے جب کہ اخلاقی اقدار کی از حد اہمیت و قدر ہے، اس کا لحاظ، مسائل کے افہام و تفہیم میں ضروری ہے،