اردن نے اسرائیل پر حملہ آور ایرانی میزائل اور ڈرون مار گرائے ہیں جبکہ سعودی عرب نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔ حالانکہ دونوں ممالک عوامی سطح پر ایران پر اسرائیلی حملوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔اگرچہ سعودی عرب اور اردن نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی عوامی سطح پر مخالفت کی ہے لیکن اردن نے اپنی فضائی حدود میں اسرائیل پر حملہ آور ایرانی میزائل اور ڈرون مار گرائے جبکہ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب نے ایران پر حملوں کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی میں 21 عرب اور مسلم اکثریتی ممالک نے واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ اس ہفتے جاری ایک مشترکہ بیان میں ان ممالک نے ”اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کی قطعی مذمت اور مخالفت‘‘ کی۔ بیان میں ”اسرائیلی جارحیت‘‘ فوری روکنے اور خطے کے امن و استحکام کو درپیش خطرات پر ”گہری تشویش‘‘ کا اظہار بھی کیا گیا۔ اس بیان پر اردن اور سعودی عرب دونوں نے ہی دستخط کیے تھے۔مگر عوامی سطحپر مخالفت کے باوجود اردن اور سعودی عرب نے بظاہر اس تنازعے میں بالواسطہ مداخلت کی ہے۔ مثال کے طور پر اردن نے ایران سے اسرائیل کی طرف آنے والے میزائل مار گرائے۔اردنی فوج نے تصدیق کی کہ فضائی حدود میں داخل ہونے والے میزائل اور ڈرون گنجان آباد علاقوں پر گرنے کا خطرہ رکھتے تھے، جس کے باعث یہ کارروائی کی گئی۔ کہا گیا تھا کہ خود مختار ریاست کے طور پر کسی بھی میزائل یا غیر مجاز شے کی فضائی حدود میں دراندازی، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔سعودی عرب نے اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں کو سعودی فضائی حدود میں میزائل گرانے کی اجازت دی گئی اور ممکنہ طور پر نگرانی میں بھی تعاون کیا گیا۔
***سعودی عرب کی حکمت عملی کیا ہے؟
سعودی عرب بھی ایک نازک صورتحال کا شکار ہے۔ اس نے بھی دیگر 20 مسلم ممالک کے ساتھ وہی اعلامیہ جاری کیا اور اس سے پہلے بھی ایران کو ”برادر ملک‘‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی تھی۔مگر اصل صورتحال مختلف ہے۔ اسٹیفن لوکاس کے مطابق سعودی عرب غیر رسمی طور پر ایران مخالف کارروائیوں میں شریک ہے، ”سعودی عرب اسرائیل کو ریڈار ڈیٹا فراہم کرتا ہے اور اپنی فضائی حدود کے شمالی حصے میں اسرائیلی طیاروں کی موجودگی نظر انداز کرتا ہے، خاص طور پر اس حصے میں جہاں سے ایرانی میزائل گزرتے ہیں۔‘‘
سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر بھی بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے مگر اب بھی ان کا رشتہ کمزور ہے۔ کسی بھی غیر یقینی صورت میں سعودی عرب امریکہ ہی کی طرف دیکھے گا۔ (DW)