وقف ترمیمی قانون کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے جس تفصیلی احتجاجی پروگرام کا اعلان کیا ہے اس کا ایک جزو تیس اپریل کا بتی گل پروگرام بھی ہے۔ یعنی یہ اپیل کہ جو لوگ اس قانون کو درست نہیں سمجھتے وہ احتجاجاً متعین وقت پر پندرہ منٹ اپنے گھر، دکان یا دفتر کی بتیاں بند رکھیں۔
احتجاجی پروگرام کے کئی مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ کسی فیصلے کی مخالفت کررہے ہیں ان کی مخالفت کا متفقہ طور پر اظہار ہو۔ حکومت کو بھی اور عوام کو بھی معلوم ہو کہ لوگوں کی کتنی بڑی تعداد اس فیصلے سے ناخوش ہے۔ *ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسے انوکھے طریقے اختیار کیے جائیں جن سے زیادہ سے زیادہ لوگ اور میڈیا وغیرہ اس مخالفت کی طرف متوجہ ہوسکے۔عوام کے حواس کو متوجہ کرنے والے مظاہر (ویژولس) تشکیل پاسکیں۔ لمبی مہمات میں ایک ہدف یہ بھی پیش نظر ہوتا ہے کہ وقفے وقفے سے ایسے سادہ طریقے اختیار کیے جاتے رہیں کہ مسئلہ زندہ رہے اور اس سے توجہ ہٹنے نہ پائے۔
عوامی ریلیاں،جلسے، دھرنے وغیرہ کی اپنی اہمیت ہے لیکن ہمیشہ وہ کافی نہیں ہوتے۔ ان میں سب لوگ شریک نہیں ہوپاتے۔ کاز سے دلچسپی اور اتفاق کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد کے لیے مختلف وجوہ سے ان میں شامل ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے احتجاجی مہم میں متوازی طور پر ایسے طریقے بھی اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی مخالفت ظاہر کرسکیں۔ جو لوگ ریلیوں وغیرہ میں نہیں آسکتے ان کی رائے بھی سامنے آسکے اور ایسے طریقوں سے سامنے آسکے جو عوام کومتوجہ کرسکیں۔
احتجاجی مہمات کی عالمی تاریخ پر نظر رکھنے والے ایسے متعدد طریقوں کو جانتے ہیں جو حد درجے سادہ، آسان اور محض علامتی ہونے کے باوجود غیر معمولی طور پر موثر ثابت ہوئے ہیں۔ خود بتی گل کے طریقے کی عالمی تاریخ سے متعدد مثالیں اور اثر انگیز مثالیں پیش کی جاسکتی ہین۔
بتی گل کا یہ طریقہ غالباً اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر طئے کیا گیا ہے۔ یہ واحد کام نہیں ہے جو بورڈ نے طئے کیا ہے۔ احتجاج کے متعدد طریقوں کے ساتھ متوازی طورپر یہ تدبیر بھی طئے کی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کے ذہن میں اور بھی کوئی بہتر تدبیر ہوسکتی ہے۔ لیکن احتجاجی مہمات میں ذریعے سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہوتی ہے کہ جو بھی کیا جائے وہ متحد ہوکر کیا جائے۔ ایک ساتھ اپنی بات سامنے لائی جائے۔ بھانت بھانت کی بولیاں اورمین میکھ ، احتجاجی مہمات کے لیے سم قاتل ہوتی ہیں۔ جب کشتی بھنور میں ہو اس وقت ملاحوں کی تدبیروں کو بحث و جدال کا موضوع بنانا یا عین میدان کارزار میں سخت معرکے کے دوران عسکری چالوں پر دانشورانہ تجزیوں کا بازار گرم کرنا، سمجھ داری کا کام نہیں ہے۔ سب تدبیروں سے زیادہ ایسے موقعے پر اتحاد ویگانگت کی اہمیت ہوتی ہے۔
بعض لوگ بورڈ کی اس مہم کا، کووڈ کے دوران کی تالیاں پیٹنے اور برتن بجانے کی مہم سے موازنہ کرنے لگے ہیں۔ یہ سمجھے بغیر کہ کووڈ کے دوران کی وہ مہم کوئی احتجاجی مہم نہیں تھی۔ کیا کووڈ کسی انسانی فیصلے کے ذریعے لائی ہوئی آفت تھی جس کے خلاف متحدہ آواز اٹھانے یا یا احتجاج کے علامتی اظہار کی ضرورت درپیش تھی؟ وہ مہم محض توہمات کی یا مخصوص مذہبی اور تہذیبی رسوم کو سب پر مسلط کرنے کی کوشش کا مظہر تھی اس لیے بجا طور پر اس کی ٘مخالفت ہوئی یہاں بتی گل کسی توہم یا کسی عقیدے کے طور پر اختیار نہیں کی جارہی ہےنہ کسی قدرتی آفت پر بے معنی اور بے فیض رد عمل کے طور پر۔ یہ انسانی فیصلوں کے خلاف احتجاج کی محض ایک تدبیر ہے۔ اور مقصود زیادہ سے زیادہ لوگوں کی رائے کو سامنے لانا ہے۔ ایسے موقعوں پر کوئی بہتر مشورہ ہو تو ذمہ داروں تک ضرور پہنچانا چاہیے لیکن متفقہ احتجاج میں رخنہ پیدا کرنے والے بے موقع مباحث سے گریز کرنا چاہیے۔
*نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ