ڈھاکہ :
بنگلہ دیش کے دو روزہ دورے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی ہندوستان واپس آگئے ہیں ، لیکن وہاں کے اخبارات اور نیوز ویب سائٹ پر اتوار کوبھی چھائے رہے۔
’دی ڈیلی اسٹار‘ نیوز ویب سائٹ پر پہلا مضمون وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے سے متعلق شائع ہوا ہے۔ اس کا عنوان ہے:’ ‘کنکٹویٹی بائنڈبنگلہ دیش، انڈیا‘
اس میں کہا گیا ہے کہ دوطرفہ بات چیت کے دوران بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کےہندوستانی ہم منصب نریندر مودی نے زیر التواء معاملات کو حل کرنے کا عزم کیا اور پورے ایشیا میں امن و استحکام کے قیام ، دونوں ممالک کے تعلقات کو مستحکم کرنے کے عزم کو دہرایا۔
اسی دوران دونوں رہنماؤں نے تجارت میں توسیع کے لئے علاقائی رابطے کو مزید بہتر بنانے پر زور دیا۔ وہیں شیخ حسینہ نے تیستا پانی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔
اس کے جواب میں نریندر مودی نے کہا کہ ہندوستان اس معاہدے پر دستخط کرنے کا پابند ہے اور اس سمت میں کوششیں جاری ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے اس دورے کے دوران کئی سارے سمجھوتے بھی ہوئے۔
’دی ڈیلی اسٹار‘ وہی نیوز ویب سائٹ ہے جس میں وزیر اعظم مودی نے اپنے بنگلہ دیش کے دورے کو لے کر ایک مضمون لکھا تھا۔ اس آرٹیکل کا عنوان تھا:’امیجنگ اے ڈیفرنٹ ساؤتھ ایشیا ودھ بنگ بندھو‘
وہیں ’دی انڈیپنڈنٹ ‘نے سہ سرخی لگائی ہے ۔’ بھارت ہمیشہ بنگلہ دیش کے ساتھ کھڑا رہے گا: مودی‘
اس کے علاوہ بنگلہ دیش کے میڈیا میں بھی وزیر اعظم مودی نے وہاں کے مندروں سمیت جن مقامات کا دورہ کیا ، ان سے جڑی خبریں بھی بنگلہ دیش کے میڈیا میں نظر آئیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم مودی کے دورہ بنگلہ دیش کے خلاف ڈھاکہ سمیت دیگر حصوں میں مظاہرے کیے گئے۔ اس دوران پولیس کے ساتھ ہونے والے تشدد میں بنگلہ دیش کے چٹاگاؤں میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوگئے ۔
‘’ڈھاکہ ٹرائبون‘ نے نئی دہلی میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے سینئر فیلو پارٹھ ایس گھوش کا نظریہ مضمون شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگر بی جے پی مغربی بنگال میں جیت جاتی ہے تو شیخ حسینہ کے لئے سیاسی چیلنجز کئی گنا بڑھ جائیں گے۔
اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ مودی کا’ ‘ہندوتوا‘ اور شیخ حسینہ کی’ مذہبی رواداری‘ بنیادی طور پر ایک دوسرے کے برعکس ہے۔
اس مضمون کے مطابق 27 مارچ سے شروع ہوئے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے لئے بی جے پی کے اسٹار پرچارک مودی ہندو- مسلم تقسیم کی بات کررہے ہیں جو ریاست کی سیاست میں پہلے کبھی نہیں کی گئی ۔
اس میں لکھا ہے ،’مودی کی زیرقیادت بی جے پی کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد ہندوتوا نے بنگال کی سیاست میں قدم رکھا تھا۔ حال ہی میں بی جے پی نے بنگال کی سیاست میں مضبوط موجودگی درج کرائی تھی اور پچھلے لوک سبھا انتخابات میں42 نشستوں میں سے 18 اپنا نام کرلی ۔
اس مضمون میں یہ لکھاگیا ہے کہ ہندوستان کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کو مغربی بنگال کے آٹھ مراحل کی ووٹنگ اور پھر 2 مئی کے نتائج کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
پارتھ ایس گھوش نے مضمون میں یاد کرکے لکھتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد جب بھارت کے کئی حصے ہندو -مسلمان فسادات کی زد میں تھے تب بنگلہ دیش امن کی علامت بنا ہوا تھا۔
وہ لکھتے ہیں ، شیخ حسینہ اور نریندر مودی کے لئےواضح طور پر مواقع موجود ہیں ، لیکن گہرائی میں جاکر دیکھیں تو سنگین تضادات جنم لیتے ہیں۔ بنگلہ دیش ہندوستان سے خوش ہے کیونکہ اس سے معاشی فائدہ ہو رہا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ اس کی برآمدات میں 300 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ہندوستان بھی خوش ہے کہ کیونکہ بنگلہ دیش شمال مشرق میں قائم عسکریت پسندوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روک رہا ہے لیکن ان سنگم کے مقامات سے ماوراء ایک وسیع اور خطرناک سمندر ہے۔
اگر بی جے پی نے مغربی بنگال میں اقتدار حاصل کیا تو حسینہ کے لئے سیاسی چیلنجوں میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ حسینہ مودی کے مشترکہ بیان کی اچھی باتوں کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں ہوگی۔
تعلقات خراب ہوسکتے ہیں کیونکہ مودی اور نہ ہی امت شاہ جنوبی ایشیا کی علاقائی ذہنیت کو سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خارجہ پالیسی ایک طرح سے گھریلو سیاست ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گھریلو سیاست کیسی ہے۔