لکھنؤ :
داغدار ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل اے سے کیسز واپس لینے پر سپریم کورٹ کے تبصرے کے بعد یوپی اسمبلی کے کئی ممبران کی سانسیں اٹک رہی ہیں۔ 2017 میں جب انتخاب اختتام پذیر ہوا تھا اس وقت پردیش کے 403 ایم ایل اے میں سے 143 ایم ایل اے کے خلاف فوجداری مقدمے درج تھے ۔
اس میں بی جے پی کے 114 ، ایس پی کے 14 ، بی ایس پی کے پانچ اور کانگریس کے ایک ایم ایل اے پر معاملہ درج تھا، باقی ممبران اسمبلی دیگر پارٹیوں کے اور آزادامیدوار تھے ۔
حکومت بنانے کے بعد ہر حکومت کی طرح بی جے پی نے بھی اپنے لیڈروں پر درج مقدمات کو واپس لینا شروع کیا۔ مارچ 2017 کے اے ڈی آر کے اعدادوشمار پر غور کریں تو جن 143 ایم ایل اے پر مقدمے درج تھے اس میں سے 103 ایم ایل اے ایسے تھے جن پر سنگین دفعات میںمقدمے درج تھے ۔ اس میں قتل، قتل کی کوشش ، خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، ہیرا پھیری جیسے معاملے درج تھے ۔
بتادیں کہ سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں ریاستی حکومتوں کے اختیارات کو ختم کرتے ہوئے منگل کو کہاکہ ممبران پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی کے خلاف کوئی بھی فوجداری مقدمے ہالی کورٹ کی منظوری کے بغیر واپس نہیں لئے جاسکتے۔
چیف جسٹس این وی رمن کی قیادت والی بنچ نے مرکزی حکومت اور سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کے ذریعہ اس معاملے میں اسٹیٹس رپورٹ داخل نہیں کرنے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے سیاستدانوں کے خلاف فوجداری مقدمات کی نگرانی کے لیے خصوصی بنچ تشکیل دینے کے اشارےدئے ہیں۔