تحریر:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ظلم ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے _ طاقت ور کوئی فرد ہو ، یا گروہ ، یا ریاست ، اس نے طاقت کے نشے میں کم زوروں کو ستایا ہے اور ان کی زندگی اجیرن بناکر رکھ دی ہے _ لیکن تاریخ نے اس حقیقت کو بھی محفوظ رکھا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، بلکہ نوشتۂ دیوار ہے کہ ظالموں کا بڑا درد ناک اور عبرت ناک انجام ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوکر رہا ہے کہ "ہم ضرور ظلم کرنے والوں کو ہلاک کرکے رہیں گے _ ( ابراہیم : 13) تاریخ میں کتنے ہی ظالموں کا نام محفوظ ہے : نمرود ، شدّاد ، فرعون اور جدید تاریخ میں ہٹلر اور مسولینی ، لیکن سب قصۂ پارینہ بن گئے _ ان کو کوئی یاد نہیں کرتا اور جو لوگ یاد کرتے ہیں وہ ان کے ظلم و ستم کا ہی حوالہ دیتے ہیں _۔
ظلم و ستم اب بھی جاری ہے _ پوری دنیا میں اور اپنے ملکِ عزیز میں بھی _ طاقت ور اپنے طاقت کے نشے میں چور ہیں اور وہ کم زوروں کو ہر طرح سے مشقِ ستم بنا رہے ہیں _ آج کل مسلمان ان کے نشانے پر ہیں _ مسلمانوں کا وجود ان کو کھٹک رہا ہے ، ان کے لباس سے انہیں وحشت ہوتی ہے ، وہ ان کے کھانے پینے کی چیزوں پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں ، ان کی مسجدوں کو وہ حرفِ غلط کی طرح مٹا دینا چاہتے ہیں ، اب معاملہ یہاں تک آگے بڑھ گیا ہے کہ وہ ان کے پیغمبر ، جنھیں وہ اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ، کے بارے میں ایسی گندی زبان استعمال کررہے ہیں جس سے مسلمان اذیت محسوس کریں اور جب وہ اذیت کا اظہارِ کرتے ہوئے سراپا احتجاج بنتے ہیں تو ان کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔
ظلم کی ان تمام شکلوں میں بدترین شکل وہ ہے جس کا ارتکاب کوئی ریاست کرے _ ریاست تو اپنے شہریوں کی محافظ ہوتی ہے _ وہ انہیں عدل و انصاف فراہم کرتی ہے _ شہریوں میں سے کوئی فرد دوسرے فرد پر یا کوئی گروہ دوسرے گروہ پر ظلم کرے تو وہ ظالم کی سرکوبی کرتی اور مظلوم کو تحفظ فراہم کرتی ہے ، لیکن جب ریاست ہی اپنے شہریوں پر ظلم کرنے لگے تو جنگل راج وجود میں آتا ہے _ اس وقت اس ریاست کے زوال کے دن قریب آجاتے ہیں اور اس کے فنا کے گھاٹ اترنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اسے ’اسٹیٹ ٹیررزم‘ کا نام دیا گیا ہے _ آج کل ریاست اترپردیش میں اسی طرح کی اسٹیٹ ٹیررزم کا مشاہدہ ہورہا ہے ، جسے دوسرے الفاظ میں ’بلڈوزر ٹیررزم‘ کا نام دیا جانا مناسب ہے _۔
چند ایام قبل رسول اللہ ﷺ کی اہانت کی گئی _ جن لوگوں نے اہانت کی ان کے خلاف حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور جب مسلمانوں نے بعض مقامات پر پُرامن احتجاج کیا تو ان پر بندوقوں کے دہانے کھول دیے گئے ، جس سے کافی لوگ زخمی اور کئی معصوم جاں بحق ہوگئے _ بڑی تعداد میں انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھوس دیا گیا _ پریاگ راج شہر میں تو ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ ریاستی انتظامیہ اور پولیس کی نگرانی میں ایک ایسے شخص کا گھر زمین بوس کردیا گیا جس نے خود اور اس کے گھر والوں نے اس احتجاجی مظاہرہ میں شرکت بھی نہیں کی تھی _ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ملزم کو بلا تحقیق و تفتیش مجرم قرار دے دیا جائے اور عدالت کے ذریعے اس کا جرم ثابت کرکے سزا دلوانے کے بجائے حکومت خود ہی من چاہی سزا نافذ کردے _ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سزا ‘نام نہاد’ مجرم‘ کو نہیں، بلکہ اس کے کسی رشتے دار کو دے دی جائے _ یہ تو سراسر جنگل راج ہوا _ معلوم ہوا ہے کہ حکومت جس شخص کو مجرم قرار دے رہی ہے ، منہدم کیا جانے والا مکان اس کی ملکیت میں تھا ہی نہیں _ اس صریح ظلم و زیادتی کو ریاستی دہشت گردی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا _ ۔
ملک کے سنجیدہ شہریوں کو ، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور کسی بھی سماج سے ہو ، اس صریح ظلم اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے _ اطلاعات موصول ہوئی ہے کہ ملک کے دار الحکومت کی دو یونی ورسٹیوں : جامعہ ملیّہ اسلامیہ اور جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی کے طلبہ اور طالبات نے اس پر احتجاجی مظاہرے کیے ہیں _ قابلِ مبارک باد ہیں یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ، جنھوں نے مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمّت میں اپنی آواز بلند کی ہے _ ان کی تائید کی جانی چاہیے اور ان کا سہارا بننا چاہیے _ مسلمانوں کے لیے یہ بہت نازک وقت ہے _ یہ ایک دوسرے پر الزام لگانے کا موقع نہیں ہے کہ کس نے آواز بلند نہیں کی یا کس نے آواز بلند کرنے میں تاخیر کی، جن سے جو ہوسکے وہ اپنی خدمات پیش کریں ، مظلومین کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں ، محروسین کو چھڑانے کی کوشش کریں ، جن پر مقدمات عائد کیے گئے ہیں ان کی پیروی کریں ، جن کی جانیں لی گئی ہیں ان کے گھر والوں کو ڈھارس بندھائیں اور جن کے گھر ڈھائے گئے اور جن کے کاروبار برباد کردیے گئے ہیں ان کا مالی تعاون کریں۔
ایک اور معاملے میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے _ ہمارا دشمن بہت گھاگھ اور کائیاں ہے _ وہ چاہتا ہے کہ ہمیں اشتعال دلائے ، پھر اس کے بہانے ہم پر ظلم و ستم کے مزید پہاڑ توڑے _ اس لیے ہمیں ہر دم چوکنّا رہنا چاہیے _ آئندہ دنوں میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے کہ احتجاج کے ایسے طریقے اپنائے جائیں جن سے ہمارا کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہو _۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)