*بی جے پی ریاستوں میں اس قانون کی آڑ میں مولانا کلیم صدیقی سمیت ہزاروں مسلمان ماخوذ ہیں*
دہلی 30 اپریل جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی عرضی پر سپریم کورٹ آف انڈیا نے مئی 2025 کے وسط میں مختلف ریاستوں کے انسدادِ تبدیلی مذہب قوانین کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔
اس مقدمے میں جمعیت علماء ہند، ایک اہم فریق ہے جب کہ دوسری طرف مرکزی حکومت سمیت چھ سے زائد حکومتیں ہیں۔ جمعیت نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ جمعیت کی نمائندگی سینئر وکیل کپل سبل کر رہے ہیں، جنہوں نے سپریم کورٹ میں ان قوانین کے خلاف مستحکم مؤقف پیش کیا ہے۔
جمعیت علمائے ہند نے سپریم کورٹ میں ایک منتقلی درخواست دائر کی تھی تاکہ اس قانون سے متعلق مختلف ہائی کورٹس میں زیر التواء 21 مقدمات کو یکجا کر کے سپریم کورٹ میں سنا جائے۔ ان مقدمات میں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش، کرناٹک اور ہریانہ کی ریاستی حکومتوں کے انسدادِ تبدیلی مذہب قوانین شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست پر غور کرتے ہوئے تمام مقدمات کو یکجا کر کے 13 مئی 2025 کو سماعت کے لیے مقرر کیا ہے۔
یہ وہی دن ہے جب چیف جسٹس ریٹائر ہورہے ہیں. انھوں نے اس قانون کو بہت ہی اہم بتایا اور اس پر تاریخی فیصلہ دینا چاہتے ہیں.
جمعیت علماء ہند کا مؤقف ہے کہ یہ قوانین آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت دی گئی مذہبی آزادی کی ضمانت کی خلاف ورزی ہیں اور خاص طور پر اس قانون کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتاہے۔ سپریم کورٹ کی یہ سماعت ملک میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔