نئی دہلی، 19 مئی 2025:جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمودآباد کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئینی حق کی پامالی سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس معاملے کا جائزہ انصاف کے حقیقی اصولوں کی روشنی میں لیا جائے گا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ پروفیسر علی خان کا جو بیان میرے سامنے ہے، اسے بغاوت یا توہین کے زمرے میں پیش کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ، جہاں تک تنقید یا اختلاف رائے کی بات ہے تو اس کی گنجائش اور اجازت حاصل ہے چاہے اس کا تعلق حکومت سے کیوں نہ ہوں ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حکومت یا ملک کے کسی طبقےاور تنظیم سے اختلاف ملک کی مخالفت کے ہم پلہ نہیں ہے ۔
مولانا مدنی نےسرکار اور انتظامیہ کے دوہرے معیار کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف مدھیہ پردیش حکومت کے ایک وزیر کرنل قریشی کو’ دہشت گردوں کی بہن‘ قرار دیتے ہیں، جس پر عدالت کی سرزنش تو ہوتی ہے، مگر حکومت یا پارٹی کی جانب سے ہنوز کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں آئی تو دوسری طرف پروفیسر علی کو فوری طور پر گرفتار کر لیا جاتا ہے ، جب کہ مذکورہ وزیر کا بیان ملک کے اتحاد کی تحقیر ہے ۔ یہ روش انصاف قائم کرنے والے اداروں کے تئیں لوگوں میں بے اعتمادی کو فروغ دیتی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ انصاف کے محافظ اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ قانون کا مقصد شہریوں کی آزادی کی حفاظت ہے۔ایک جمہوری نظام میں خوف یا خاموشی کے بجائے احترامِ رائے سے اتحاد قائم ہوتا ہے۔مولانا مدنی نے حکومت ہند سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے پروفیسر علی خان کی غیر مشروط رہائی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔(سورس:پریس ریلیز)