نئی دہلی :(ایجنسی)
12 دسمبر کوہندوستان کے صدر نے شہریت ترمیمی بل کو اپنی منظوری دے دی۔ تب ملک اور دنیا نے اسے شہریت ترمیمی قانون یعنی CAA کے نام سے جاننے لگی۔ ایک طرف یہ کہا گیا کہ اس قانون سے افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان کے مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی، عیسائیوں کے لیے شہریت کے قوانین کو آسان بنا گیا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں اس قانون کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر اترنے لگے۔ مذہب کی بنیاد پر شہریت؟ یہ سوال اٹھنے لگا۔
دریں اثنا، فروری کے مہینے میں، اچانک دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت احتجاج شروع ہو گئے۔ سڑک جام کی مخالفت میں سڑک جام ۔ پھر کیا تھا دیکھتے دیکھتے دہلی آگ کے حوالے تھی۔ شمال مشرقی دہلی میں تشدد پھوٹ پڑا، 50 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ تب پولیس نے تشدد بھڑکانے اور اس میں ملوث ہونے کے نام پر کئی لوگوں کو گرفتار کیا۔ کئی لوگوں پر غیر قانونی سرگرمی ( روک تھام) ایکٹ یو اے پی اے لگایا گیا۔ یو اے پی اے کئی ایسے لوگوں پر لگا جو ایکٹیوزم یا طلبہ سیاست سے جڑے ہوئے تھے ، لیکن کئی ایسے لوگوں کا بھی نام آیا جونا تو ایکٹیوزم میں تھے نا ہی سیاست میں ۔
اس دستاویزی فلم کو بنانے کے پیچھے سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جن پر یو اے پی اے لگایا گیا ہے؟ یہ لوگ کب سے جیل میں ہیں؟ میڈیا کی اسپاٹ لائٹ سے دور رہنے والے ان لوگوں کے اہل خانہ کا کیا کہنا ہے؟
کہانی نمبر ایک – سلیم خان
سلیم خان دہلی فسادات کے الزام میں 13 مارچ 2020 سے جیل میں بند ہیں۔ سلیم خان کو یو اے پی اے کے تحت 2020 کے دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کے لیے ملزم بنایا گیا ہے۔ اس دوران سلیم خان کبھی جج کو اور کبھی اپنے اہل خانہ کو خط لکھتے ہیں۔ جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی کے درد کو سیکڑوں صفحات پر قلم بند کیا ہے۔ سلیم خان کی اہلیہ شبینہ خان ان صفحات کو سمیٹتے ہوئے کہتی ہیں – میرے شوہر سلیم خان بے قصور ہیں۔
دہلی تشدد کے بعد 25 فروری، 5 مارچ اور 6 مارچ کو دہلی پولیس کی طرف سے درج تین ایف آئی آر میں سلیم خان کو ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ ان میں سے دو ایف آئی آر میں مجرمانہ سازش، غیر ارادتاً قتل اور نقصان پہنچانے سمیت مجرمانہ الزامات ہیں، ساتھ ہی آرمس ایکٹ کے تحت بھی الزام ہے۔
سلیم خان کے خلاف ایف آئی آر میں یو اے پی اے کی دفعہ 13، 16، 17، 18، آرمس ایکٹ کی دفعہ 25 اور 27 اور پریوینشن آف پبلک ڈیمیج ٹو پراپرٹی ایکٹ 1984 کی دفعہ 3 اور 4 سمیت سخت الزامات شامل ہیں۔
کہانی نمبر دو – تسلیم خان
تسلیم احمد، جسے شمال مشرقی دہلی میں فسادات کی سازش کے سلسلے میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، سی اے اے-این آر سی کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا کرتا تھا۔ تسلیم کو سب سے پہلے دہلی پولیس نے ایف آئی آر رپورٹ 48/2020 سے متعلق ایک کیس میں گرفتار کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مظاہرین نے 22 فروری 2020 کی رات جعفرآباد میں سڑک پر قبضہ کرکے پولیس کی مخالفت کی۔
تاہم 10 جون 2020 کو احمد کو اس معاملے میں ضمانت مل گئی تھی۔ لیکن کچھ دنوں بعد پھر سے پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے بلانا شروع کر دیا اور 23 جون کو دوبارہ گرفتار کر لیا۔
تسلیم کو دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے ایف آئی آر نمبر 59/2020 میں فساد کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
تسلیم کی بیوی پوچھتی ہیں۔
’’کیا شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں حصہ لینا جرم ہے؟ میرے شوہر احتجاج میں اپنے حقوق کے لیے جاتے تھے۔ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنا کوئی غلط بات نہیں۔‘‘
کہانی نمبر 3۔اطہر خان
نام اطہر خان
عمر – 26 سال
کام: کارکن، طالب علم
اطہر کے والد افضل خان کا کہنا ہے کہ 2 جولائی 2020 کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل ٹیم کو تفتیش کے لیے بلایا گیا لیکن وہ دوبارہ گھر نہیں آیا، پولیس کا فون آیا کہ ہم نے اطہر کو روک لیا ہے۔ دو دن بعد نیوز میں ہیڈ لائن آئی کہ3 جولائی کو اطہر کو چاند باغ میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیاہے ۔
پولیس کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے اطہر کے والد کا کہنا ہے کہ اطہر خود تفتیش کے لیے پیش ہوئے تھے۔ پولیس نے پھر کس گھر سے گرفتار کیا؟ ظاہر ہے پولیس نے جھوٹ پھیلایا ہے۔
دہلی پولیس نے کرکڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے)، تعزیرات ہند (آئی پی سی)، آرمس ایکٹ اور عوامی املاک کو نقصان کی روک تھام کے قانون کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر59/2020میں 17,500صفحات کی چارج شیٹ میں اطہر خان پر فروری 2020 کے دہلی فسادات کو منظم کرنے کی سازش کرنے کا الزام لگایا گیا، جس میں 53 لوگوں کی جان گئی تھی۔
اطہر کے والد افضل خان کا کہنا ہے کہ’ اطہر عام آدمی پارٹی کا ورکر تھا اور کپل مشرا کا ساتھی تھا، کپل مشرا نے گزشتہ الیکشن میں جو جیتا تھا اس میں اطہر کا اہم کردار تھا، اس بار جب الیکشن ہوئے تو اطہر کو کپل مشرا کا فون آیا، اطہر نے انکار کر دیا یہ۔ جب ہنگامہ ہوا تو کپل مشرا نے اطہر کی پرانی تصویر ٹویٹ کی اور کہا کہ یہ چاند باغ کا لڑکا فساد کا ماسٹر مائنڈ ہے، کپل مشرا نے اطہر سے بدلہ لے لیا ہے۔
27سالہ اطہر کے والد اپنے سماج سے بھی ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’سماج سے شکایت ہے کہ اطہر کی گرفتاری کے بعد سماج ایک لاش کی مانند ہو گیا ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب خوف کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہمارے رشتہ دار ہمارے پاس آنے کو تیار نہیں، پوچھنے کو تیار نہیں۔ کئی رشتہ داروں نے ہمارا فون نمبر بلاک کر رکھا ہے، شاید اس ڈر سے کہ ہم بھی گرفتار ہو جائیں، سب جانتے ہیں کہ تحریک ختم کرنے کے لیے کیسے فسادات کروائے گئے، کس نے بھڑکایا۔‘‘
کہانی نمبر 4 – شاداب احمد
شاداب کو دہلی پولیس نے 6 اپریل 2020 کو سال 2020 میں دہلی فسادات کی سازش کے سلسلے میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔
شاداب کو ہیڈ کانسٹیبل رتن لال کے قتل سے متعلق ایف آئی آر 60/20 کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم، مئی میں، شاداب کا نام ایف آئی آر 59/20 میں دہشت گردی کے سخت قانون – غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت درج کیا گیا تھا۔ شاداب پر دہلی تشدد کے ’سازشی‘ کے طور پر الزام لگایا گیا ۔
تاہم شاداب کے والد کا کہنا ہے کہ ’آپ میرے بیٹے کی کوئی بھی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں اور اس نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جس سے کسی کو اکسایا جائے، اس نے صرف آئین کے دائرے میں رہ کر بات کی تھی۔‘
(بشکریہ: دی کوئنٹ)