تحریر: کلیم الحفیظ-نئی دہلی
انسان جب اپنے مقام بلند کو بھول جاتا ہے تو انتہائی پستی میں جا گرتا ہے۔ مسلمانوں کے مقام و منصب کے تعلق سے قرآن میں کیا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس سے ہم سب واقف ہیں ۔قرآن نے حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے والوں کو’’ خیر امت ‘‘ کے لقب سے نوازا ہے یعنی کہ تم بہترین امت ہو،تم کو سارے انسانوں کی لیڈر شپ کے لیے برپا کیا گیا ہے تم تمام انسانیت کو معروف کا حکم دیتے ہو،انھیں برائیوں سے روکتے ہو۔ایک جگہ فرمایا گیا کہ تم ہی سربلند رہوگے اگر تم مومن ہو۔سورہ نور میںارشاد ہوا’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں’’ خلیفہ‘‘ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وہ امن وامان سے بدل دے گا۔‘‘قرآن کی ان واضح تعلیمات کے باوجود اگر ایک مسلمان سیاست داںببانگ دہل یہ کہتا ہے کہ ’’کچھ لوگ گمراہ ہوگئے ہیں ،بھارت میں اپنی قیادت کی بات کرتے ہیں ،جنھیں اپنی قیادت بنانا ہے وہ پاکستان جائیں ،یہاں ہمارا نیتا ہندو ہی رہتا ہے‘‘تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سیاست داں کو نہ اپنے دین کا علم ہے ،نہ اپنی تاریخ کا علم ہے اورنہ اپنے مقام کا احساس ہے ۔
میں یہ بات واضح کردوں کہ میں کسی غیر مسلم لیڈر شپ کے وجود کا انکار نہیں کررہاہوں ،میں مہاتما گاندھی ،پنڈت جواہر لال نہرو،لال بہادر شاستری سے لے کر موجودہ دور کے ملائم سنگھ ،لالو یادو،سونیا گاندھی کو دیش میں ان کے اپنے طبقوں کا لیڈر مانتا ہوں ،مجھے تسلیم ہے کہ ان کی لیڈر شپ میں درجنوں مسلمان سیاست دانوں نے کام کیا ہے اور کررہے ہیں ۔لیکن میں اسی کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر،شیخ محمود الحسن،مولانا ابو الکلام آزاد سے لے کر موجودہ دور میں بیرسٹر اسد الدین اویسی،مولانا بدرا لدین اجمل قاسمی،محمد اعظم خاں کو بھی بھارت واسیوں کا لیڈر اور رہنما مانتا ہوں ۔لیکن میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ بھارت میں مسلمانوں کا قائد ہمیشہ ہندو ہی رہا ہے اور بھارت کی یکجہتی کے لیے آئندہ بھی ہندو کی لیڈر شپ میں ہی مسلمانوں کو کام کرنا چاہئے۔میں سیکولر ملک کے سیکولر آئین کی روشنی میں وہ بات تو نہیں کہتا جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے کہی ہے کہ ’’سیاست بھی نماز کی طرح دین کا حصہ ہے اگر نماز کا امام غیر مسلم نہیں ہوسکتا تو سیاست کا امام غیر مسلم کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘لیکن ماضی کی مسلم قیادت کا انکار اور موجود ہ حالات میںمسلم سیاسی قیادت کی ضرورت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔
لگتاہے کہ ہمارے سیاسی رہنمامہاراشٹر میں رہتے رہتے شیوسینا کی زبان بولنے لگے اور اپنے خطے کی دوراندیشی کو بھول گئے۔ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان جانے کی دھمکیاں اکثر ہندو شدت پسندوں کی زبان سے ملتی رہی ہیں،جس پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی مگر ا یک مسلم سیاسی لیڈرکی آخر وہ کونسی مجبوری ہے جس کے چلتے اسے دشمنوں کی زبان بولنا پڑی ،کاش وہ سوچتے کہ ان کے اس بیان سے خود ان کی پارٹی کو کس قدر نقصان پہنچے گا۔محض فانی دنیا کے عارضی مفاد و منصب کی خاطر خلاف دین وشریعت اوربھارتی مسلمانوں کی تضحیک کا سبب بننے والا بیان دینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ہم غلامی کرتے کرتے یہ بھی بھول گئے کہ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں اور یہاں کے آئین نے ہر قوم اور ہر گروہ کو اپنا لیڈر چننے کی آزادی عطا کی ہے۔ہم یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ جس مہاشے کی قیادت میں رہ کر کام کرنے کی بات کی جارہی ہے خود وہ ’مہاشے ‘صرف سات فیصد یادووں کے لیڈر ہیں۔دراصل غلامی کا طوق انسان کو سگ دنیا بنا دیتا ہے۔دنیا کی حرص اسے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف کھڑا کردیتی ہے ،جھوٹی شان و شوکت کا فریب اپنوں کے خون سے ہاتھ لال کرادیتا ہے ۔حرص دنیا اور دنیا خراب ہوجانے کا خوف ہی کسی سے ایسی بے ہودہ باتیں کراتا ہے۔
کیا ابھی بھی وقت نہیںآیا ہے کہ بھارتی مسلمان اس بات پر غور کریں کہ ان کا مقصد وجود کیا ہے ؟ اپنی روشن تاریخ سے روبرو ہوکر اپنے مستقبل کو سنواریں،جس قوم نے اسی خطے پر سات سو سال تک قیادت کی ہو،جس قوم کو منصب امامت خود خالق کائنات نے عطا کیا ہو،جس کو پیدائشی طور پر سیادت کی خصوصیات سے نوازا گیا ہو اسی قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنی قیادت کے بارے میں سوچنے کو بھی تیار نہیں ،وہ خود اپنے آس پاس سے کتنی بے خبر ہے ؟ کہ اسے نہیں معلوم کہ تین فیصد آبادی والے گروہ نے بھی اپنا لیڈر چن لیا ہے؟ جب کہ خود اسے یہ تعلیم دی گئی تھی کہ تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے جماعت کی نماز کا ثواب 27درجے زیادہ ہے،جسے کہا گیا تھا کہ اپنے اوپر اجتماعیت کو لازم کرلو ،جو جماعت سے بالشت بھر بھی الگ رہا وہ جاہلیت کی موت مرا،جس کو سفر تک کے لیے تاکید کی گئی تھی کہ اگر دو لوگ بھی ہوں تو اپنے میں سے ایک کو امیر بنالیں،اسی قوم کا ایک لیڈر جس پر قوم کو ناز تھا،جس سے امید تھی کہ وہ قوم کی نیا پار لگائے گا اسی نے قوم کو امامت کے منصب سے معزول کرکے ان لوگوں کی غلامی میں دے دیا جنھوں نے آج تک مسلمانوں کا کوئی بھلا نہیں کیا ۔
جس گروہ کو ساری دنیا کی امامت کرنا تھی ،جس کے کاندھوں پر ذمہ داری تھی کہ وہ سارے انسانوں کی قیادت کرے اور جس نے تاریخ کے ایک طویل حصے تک یہ فریضہ انجام بھی دیا وہ گروہ ذہنی غلامی کی اس قدر پستی میں چلاجائے گا کہ اپنے وجود کا ہی انکار کربیٹھے گا۔آج یہ کہنے والے کہ ہمارا لیڈر ہندو ہی رہتا ہے کیا کل وہ یہ نہیں کہہ سکتے بھارت میں تو ہمارے مائی باپ ہندو ہی تھے اور ہندو ہی رہیں گے۔افسوس ہوتا ہے اور دل دکھتا ہے ،مستقبل تاریک نظر آتا ہے جب کسی مسلم لیڈر کے منھ سے غیروں کی غلامی کی بو آتی ہے۔آخر کس چیز کی کمی ہے مسلمانوں میں ،کیا ان کا دین کمزور ہے یا نا مکمل ہے جس میں قیادت کے آداب نہ بتائے گئے ہوں ،کیا ان کے پاس آخری رسول کی شکل میں مکمل قائد اور لیڈر نہیں ہے کہ انھیں کسی اور لیڈر کی ضرورت پیش آئے۔کیا ان کے اندر ٹیلینٹ کی کمی ہے،کیا وہ آئینی طور پر پابند ہیں کہ غیروں کو ہی اپنا ہی امیر منتخب کریں؟آخر اس ناعاقبت اندیش لیڈر کے پاس کیا دلیل تھی جس کی روشنی میں انھوں نے ہندی مسلمانوں کو پاکستان جانے کو مشورہ دیا؟کیا موجودہ ہندوستان کی تعمیر اور آزادی میں مسلمانوں کا حصہ کسی دوسری قوم سے کم ہے؟ضرورت ہے کہ مسلمان اس بات کو سمجھیں کہ ان کی سیاسی قیادت دینی ،شرعی،سیاسی اور سماجی طور پر کس قدر ضروری ہے۔؟علامہ اقبال نے ٹھیک ہی کہا تھا:
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا