گذشتہ ہفتے قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمان بن جاسم التھانی نے کسی بھی اسرائیلی چینل کو دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں اپنے دورہ اسرائیل کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے۔
قطری وزیر اعظم کا اسرائیلی چیمشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی ایک مرتبہ پھر توجہ اِسی بات پر ہو گی کہ سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک کو کیسے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی راہ پر لایا جائے۔نل پر نمودار ہونا درحقیقت امریکہ کے لیے قطر کی جانب سے خیر سگالی کا اظہار ہے۔ قطر کو یقین ہے کہ ٹرمپ کا موجودہ دور ایک ’طوفانی دور‘ ہو گا، اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوحہ کے پاس دو آپشن ہو سکتے ہیں: یا تو وہ ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے ’جُھک جائیں‘ یا عرب قانونی حیثیت کے دائرے میں رہتے ہوئے ’کھلے پن کے اظہار‘ جیسے اپنے عمل کا اظہار کریں۔امریکہ نے سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں یہ اشارہ دیا تھا کہ اگر قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان اپنی ثالثی کی کوششوں میں کامیاب نہ ہوا، تو امریکہ کے قطر کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔‘ قطر کے اسلام پسندوں کے ساتھ تعلقات اور حماس، اسرائیل جنگ میں ’الجزیرہ‘ کے کردار کی وجہ سے امریکہ کو ہمیشہ قطر پر اعتراض رہا ہے۔تمام تر صورتحال مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف کے ایک پریس انٹرویو میں کہی گئی بات سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس انٹرویو میں امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کو سعودی عرب جیسے عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے امکان کو ایک حیرت انگیز موقع سمجھتے ہیں۔سٹیو وٹکوف نے اس بات کو مسترد نہیں کیا تھا کہ قطر جیسے دیگر اہم ممالک ابراہم معاہدے میں شامل ہوں گے۔
لندن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر فواز گرجز کا خیال تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے لیے سب سے اہم بات یہ ہو گی کہ وہ اس کام کو مکمل کریں جس کا آغاز انھوں نے اپنے سابقہ دور حکومت میں کیا تھا یعنی عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کروانا۔ ان کا کہنا تھا کہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ بہت ہی اہم ہو گا کہ اب بلآخر سعودی عرب میں ان ممالک میں شامل ہو جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیںانھوں نے کہا کہ ’عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ایران کے خلاف علاقائی اتحاد کے قیام کے منصوبے کا ایک لازمی حصہ ہے۔‘بی سی نیوز عربی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر فواز نے اس توقع کا اظہار کیا کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں امریکہ توجہ سعودی عرب پر مبذول ہو گی تاکہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات بحال کروائے جا سکیں۔
تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب فلسطین ریاست کے قیام کی سنجیدہ کوشش کے بغیر کیسے یہ سب کر پائے گا۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے راضی کرنے کی کوششوں کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ مصر اور اردن کی حکومتوں کو غزہ کے شہریوں کو قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے تاکہ غزہ کے مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔
اور اوپر بیان کیے گئے اِن حقائق کی بنیاد پر اور قطر کی خارجہ پالیسی کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ دوحہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل سے دور ہے، چاہے ایسا سعودی عرب سے پہلے ہو یا بعد میں۔(سورس:بی بی سی)