تحریر:رامی الریس
جدید عالمی تنازعات میں فعال کردار ادا کرنے والے رجب طیب اردغان اس وقت ایک نازک صورتحال سے دو چار ہیں۔ روس یوکرین تنازع کے ابتدائی مراحل میں ترک صدر نے سیاسی ثالثی کی جتنی بھی کوششیں کی تھیں وہ جنگ کے آغاز کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئیں۔
اگر یہ جنگ جلد ختم ہو جائے تو اپنے دو طرفہ تعلقات کے باعث اردغان ایک اچھے ثالث ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں یہ قیاس کرنا بھی قبل از وقت لگتا ہے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ہی ان سیاسی نقصانات کا تخمینہ لگانا ممکن ہو گا جو دونوں طرف کے سٹیک ہولڈرز کے حصے میں آئیں گے۔
مغرب اور مشرق کی کشمکش میں ترکی کچھ وقت کے لیے سیاسی بساط پہ اہم مہرہ رہا ہے۔ اس وقت تک کے اہم تنازعات میں ترکی نے کبھی اپنا وزن مغرب کے پلڑے میں رکھا اور کبھی مشرق کی طرفداری کی لیکن اس وقت ترکی ایک مشکل دوراہے پہ کھڑا ہے اور بظاہر مغرب اور نیٹو کا ساتھ دینا ترکی کی مجبوری نظر آتی ہے۔
اس بحران کے آغاز میں ہی ترکی نے اس کی قیمت ادا کرنا شروع کر دی تھی۔ آنے والے دنوں میں ترکی کی گرتی ہوئی معیشت مزید امریکی پابندیوں کی متحمل نہیں ہو سکے گی اور مزید افراط زر کا شکار ہو جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ جلد ترکی، واشنگٹن سے اس کشیدگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سرد مہری کے خاتمے اور از سر نو دو طرفہ سیاسی اور عسکری تعلقات کی بحالی کے بارے میں بات چیت کرے گا۔
قرائن سے لگتا ہے کہ یوکرین کی مدد کے لیے امریکہ اپنی افواج نہیں بھیجے گا بلکہ علاقائی اور کثیرالقومی تنظیموں کی پشت پہ رہتے ہوئے معاملات پہ اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرے گا۔ بصورتِ دیگر دنیا تیسری عالمی جنگ کی دہلیز پہ پہنچ جائے گی۔
اردغان کی قیادت میں ترکی کم ہی غیر جانبدار رہا ہے۔ اس وقت یہ خطے کے تمام ممالک کے ساتھ دوستی یا دشمنی کے تعلق میں بندھا ہے۔ یورپی یونین کے سامنے اس نے مہاجر کارڈ رکھا۔ امریکہ کی طرف سے ایف- 35 کے سودے میں ہچکچاہٹ کا بدلہ اس نے روس سے ایس- 400 طرز کے میزائل خریدنے کا سودا کر لیا۔
اب آپ تصور کیجیے کہ ایک نیٹو رکن ماسکو جیسے حریف سے دفاعی لین دین کر رہا ہے۔ ایسے کئی دوسرے جوڑ توڑ ترکی کے کریڈٹ پہ رکھے جاتے ہیں۔ شام کے بحران میں ترکی نے ‘آستانہ پراسیس کے لیے اقوام متحدہ کو پشت دکھاتے ہوئے روس اور ایران سے ہاتھ ملا لیا تھا۔ اس کے علاوہ شمالی شام میں مربوط فوجی کارروائیوں اور اپنے تاریخی دشمن کردوں کی گو شمالی میں بھی ان کا ہاتھ رہا۔
اس سب کے باوجود ترک صدر نے یوکرین کے ساتھ سیاسی اور عسکری تعلقات استوار کیے اور جارجیا کی طرح اس کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت بھی کی ہے۔ ممکنہ طور پر انقرہ ہتھیاروں کی تیاری اور بڑے پیمانے پہ خرید وفروخت کی دوڑ میں بھی شامل ہو سکتا ہے۔ ترکی دفاعی اور عسکری دونوں لحاظ سے مضبوط سٹریٹجک پوزیشن رکھتا ہے۔ ترکی کے لیے یوکرین ایک بفر سٹیٹ ہے۔ اور وہ روس کا بحیرہ اسود کے پار اپنی سمندری سرحد پہ سامنا نہیں چاہتا۔
مگر جب جنگ کا میدان سج جاتا ہے تو اس میدان میں اترنے والے ہر سورما کو اپنے حلیف اور حریف چننے پڑتے ہیں۔ ترکی زبانی کلامی مذمتی بیانات سے اپنا پہلو نہیں بچا سکے گا اب وقت آ گیا ہے کہ ترکی دو کشتیوں کی سواری ترک کرتے ہوئے کسی ایک فریق کا انتخاب کر لے۔ چند روز قبل بیروت میں ایک پریس کانفرنس میں روس کے سفیر نے کہا تھا کہ جنگ نے ان کے حلیف اور حریف واضح کر دیے ہیں۔
ترکی ایک دوراہے پہ ہے اور اسے جلد اپنا واضح اور دو ٹوک انتخاب دنیا کے سامنے رکھنا ہو گا۔ بہ ظاہر اس کا انتخاب نیٹو اور مغرب ہی ہونا چاہیے وگرنہ یہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا۔ مگر اس سیاسی اور عسکری پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ کیا یہ ترکی کے لیے ایک آسان عمل ہو گا؟
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)