(نوٹ:جماعت اسلامی ہند کے زیر انتظام مسجد اشاعت اسلام میں یوم آزادی پر مدرسہ کی بچیوں کر ذریعہ میوزیکل کلچرل پروگرام کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچا ہوا ہے ،اور نئی بحث چل پڑی ہے ۔گرچہ جماعت کے ذمہ داروں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے مگر تنقیدوحمایت کا سلسلہ جاری ہے
مولانا رضی الاسلام ندوی معروف عالم دین اور جماعت کی شوری کے ممبر کے علاوہ شریعہ کونسل کے سکریٹری بھی ہیں ۔انہوں نے اس تنازع کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے -قارئین کے استفادہ کے لئے پیش کیا جارہا ہے ادارہ )
کل شام سے اب تک میرے حلقۂ احباب میں سے بہت سے افراد نے مرکز جماعت اسلامی ہند کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام میں یوم آزادی کی مناسبت سے نغمے کے ساتھ بچیوں کی ایکٹنگ کا ویڈیو بھیجا ہے اور اس کو نامناسب قرار دیتے ہوئے اس پر اپنی ناگواری اور ناراضی ظاہر کی ہے – میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے دینی نقطۂ نظر سے جس چیز کو نامناسب سمجھا اس کی جانب توجہ دلائی – اس واقعہ کے حوالے سے بعض حضرات نے بہت تیز و تند زبان استعمال کی اور اسے جماعت اسلامی ہند کی آزاد خیالی ، بے دینی اور گم راہی پر دلیل کی حیثیت سے پیش کیا – ان کی خدمت میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں :
(1) جماعت اسلامی ہند کے وابستگان کے کئی درجات ہیں : ارکان ، کارکنان ، ہمدردان – دین کے فہم اور تحریک کے فہم کے معاملے میں ان میں تفاوت پایا جاتا ہے – کسی سے اگر کوئی نامناسب عمل سرزد ہوجائے تو اس کو پھیلاکر پوری جماعت کو بھٹکا ہوا ثابت کرنا مناسب رویّہ نہیں ہے – پورے ملک میں کہیں جماعت سے وابستہ کوئی شخص کسی نامناسب عمل کا ارتکاب کرلے تو اسے امیر جماعت یا مرکزی قیادت کی آزاد خیالی کی دلیل بنانا درست نہیں ہے –
(2) جماعت میں ہر سطح پر جائزہ اور احتساب کا عمل مسلسل ہوتا رہتا ہے – کوئی جماعت کا کارکن ہو یا رکن یا کسی سطح کا ذمے دار ، اس کے بارے میں کسی نامناسب عمل کی اطلاع ملتی ہے تو اس کی تحقیق کی جاتی ہے اور ثبوت ملنے پر اصلاحِ احوال کی کوشش کی جاتی ہے – امت مسلمہ کے ہر فرد سے میری درخواست ہے کہ جماعت اسلامی ہند سے وابستہ کسی فرد کی جانب سے کسی غیر دینی یا غیر اخلاقی حرکت کا علم ہو تو حسبِ موقع مقامی یا ریاستی یا مرکزی سطح کے ذمے داروں کو اطلاع کریں – ان شاء اللہ اس پر کارروائی کی جائے گی –
(3) اگر کسی کا مقصود جماعت اسلامی ہند کو بدنام کرنا اور عوام کے درمیان بے اعتبار کرنا ہے تو وہ جیسی چاہے زبان استعمال کرے ، لیکن اگر اصلاحِ احوال اس کا مقصود ہے تو وہ زبان مناسب نہیں جو اس موقع پر سوشل میڈیا کے بعض شہ سواروں کی جانب سے استعمال کی گئی – اللہ تعالیٰ نے فرعون جیسے ظالم و جابر اور سرکش کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا تو فرمایا کہ اس سے نرمی سے بات کرنا ، ہوسکتا ہے ، وہ سرکشی سے باز آجائے – (طہ : 44) میں سمجھتا ہوں کہ نہ جماعت اسلامی ہند کے وابستگان فرعون سے زیادہ سرکش ہیں ، نہ سرزنش کرنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ پاک باز اور احساسِ ذمے داری سے سرشار –
میں مرکز جماعت اسلامی ہند کے کیمپس میں رہتا ہوں ، لیکن مجھے اس واقعہ کی خبر نہیں ہوسکی – کل جب متعلقہ ویڈیو وائرل ہوا تو میں نے تحقیق کی اور جماعت کے بعض ذمے داروں سے بات کی – سب نے اسے ناپسند کیا ، تقریب منعقد کرنے والوں کو تنبیہ کرنے کا وعدہ کیا اور آئندہ ایسے پروگرام نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی – یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر اور مسجد اشاعت اسلام کے ذمے دار جناب ایس امین الحسن کی جانب سے اس سلسلے میں وضاحت آگئی ہے – امید ہے ، اب اس پر تبصرہ بازی کا سلسلہ بند ہوجائے گا – انھوں نے لکھا ہے :
” مسجد اشاعتِ اسلام میں قائم جز وقتی مکتب _ مدرسہ تعلیم القرآن _ میں 200 سے زائد بچے اور بچیاں زیرِ تعلیم ہیں ۔ مدرسے کے اساتذہ وقتاً فوقتاً مختلف پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں ۔ حال ہی میں یومِ آزادی کی مناسبت سے بھی ایک پروگرام منعقد کیا گیا ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس پروگرام کا انعقاد مسجد کی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کیا گیا ، حالاں کہ مسجد اس طرح کے پروگراموں کے لیے موزوں مقام نہیں ہے ۔
مرکز کے بیش تر ذمہ داران اپنے دوروں پر تھے اور اس پروگرام کے بارے میں انہیں کوئی اطلاع نہیں تھی ۔ جب سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو وائرل ہوئی تو کل رات ہمیں اس معاملے کی خبر ہوئی ۔ محترم امیر جماعت نے بھی اس واقعے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے ۔ اس ایونٹ کے متعلق سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مدرسے کے ذمہ داروں کو بروقت تنبیہ کی گئی ہے ۔
اشاعت اسلام ٹرسٹ کے سیکرٹری ، جناب محمد نیر صاحب نے بھی سوشل میڈیا پر وضاحت دی ہے کہ یہ پروگرام ذمہ داران کے علم و اطلاع کے بغیر منعقد ہوا تھا ۔ “
ایس امین الحسن
وائس چیئرمین اشاعت اسلام ٹرسٹ
و ذمہ دار مسجد اشاعت اسلام ، نئی دہلی