مذاکرات سے با خبر ایک ذریعے نے آج پیر کے روز "فرانس پریس” خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ثالثوں کی جانب سے پیش کردہ تجویز میں دس اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے 70 روز کی جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق، یہ نیا منصوبہ امریکی ایلچی اسٹیو ویٹکوف کی پیش کردہ سوچ اور حکمت عملی کی ایک نئی صورت ہے۔ اس کے تحت حماس کے قبضے میں موجود دس زندہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 70 روز کی جنگ بندی، غزہ سے جزوی انخلا، اور درجنوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شق شامل ہے۔ ان میں سیکڑوں ایسے قیدی بھی ہیں جن پر سنگین الزامات ہیں اور جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہ تجویز گزشتہ چند دنوں کے دوران پیش کی گئی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ تجویز میں اسرائیلی فوج کے جزوی انخلا کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ انخلا خاص طور پر صلاح الدین شاہ راہ سے، جس میں غزہ شہر کے جنوب میں واقع نتساریم چوراہا، رفح کے شمال میں موراج کی راہ داری اور دیگر شہری آبادی والے علاقے شامل ہیں۔
اس سے قبل اسرائیلی ٹی وی "چینل 14” نے ایک اسرائیلی عہدے دار کے حوالے سے رپورٹ دی کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق اس نئی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ تجویز امریکی تاجر بشارۃ بحبح اور امریکی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے مشترکہ طور پر پیش کی تھی۔ادھر "یروشلم پوسٹ” اخبار نے بھی ایک اسرائیلی عہدے دار کے حوالے سے خبر دی کہ تل ابیب نے "حماس” کی طرف سے پیش کردہ جزوی معاہدے کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے، جس میں پانچ یرغمالیوں کی رہائی شامل تھی۔
اسرائیلی عہدے دار نے اخبار کو بتایا کہ یہ تجویز "ان نکات سے بہت دور ہے جن پر ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں”۔اخبار کے مطابق، "حماس” نے ایک تجویز تیار کی اور اسے پسِ پردہ رابطوں کے ذریعے امریکہ تک پہنچایا، جس کے بعد امریکہ نے وہ تجویز اسرائیل کو پیش کی، تاہم امریکہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ اس تجویز کی حمایت کرتا ہے یا نہیں۔
اس تجویز میں پانچ زندہ یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کا مارچ میں سابقہ جنگ بندی کے دوران موجودہ پوزیشنوں پر واپس جانا، تمام غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت، باقی زندہ اور ہلاک یرغمالیوں کی رہائی پر مذاکرات کا تسلسل شامل ہے … یہ امریکہ کے لیے ایک طرح سے حماس کو "تسلیم کرنے” کے مترادف ہے۔
"یروشلم پوسٹ” کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے "حماس” کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ کھولا تھا، یہ ذریعہ فلسطینی نژاد امریکی تاجر اور مصنف بشارۃ بحبح ہیں۔
وہ "امن کے لیے امریکی عرب” نامی تنظیم کے سربراہ ہیں، اور اسی تجویز کی تشکیل و رابطہ کاری میں شامل رہے۔ علاوہ ازیں وہ اس معاہدے کے ذریعے یرغمالی "عیدان الیگزینڈر” کی رہائی سے متعلق بات چیت کا بھی حصہ تھے۔