تحریر : مسعود جاوید
۱- حجاب دین اسلام کا لازمی جزء ہے یا نہیں یہ
مدعا ہی نہیں ہے تو پھر عدالت میں اسے مدعا کیوں بنایا گیا!۔
مدعا یہ ہے کہ آئین نے ہر شہری کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی آزادی دی ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ آزادی پبلک آرڈر میں مخل نہ ہو اور صحت عامہ کے لئے مضر نہ ہو۔ ظاہر ہے حجاب کسی دوسرے کے لئے باعث خلل ہے اور نہ صحت عامہ کے لئے مضر تو پھر ریاستی حکومت یا اسکول انتظامیہ اس دستوری حق کو سلب کیسےکر سکتا ہے؟اس کےخلاف حکومت سے شکایت کرنے اور پر امن احتجاج کرنے کی ضرورت تھی نا کہ عدالت کا رخ کرنے کی!
اب مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی اس قضیہ کو لے کر عدالت عظمیٰ جانا چاہتا ہے !
کئی سینئر ریٹائرڈ فاضل ججز کا کہنا ہے کہ حجاب کے مذہبی پہلو کو لےکر عدالت کا رخ کرنا مناسب قدم نہیں تھا اس لئے کہ عدالت کا کام مقدس مذہبی کتابوں کی تشریح کرنا نہیں ہے اور نہ اس کام کے وہ ماہر ہیں۔
تیسری بات جو ان میں سے بعض نے کہی کہ ججز بھی انسان ہوتے ہیں ارد گرد کے حالات اور ماحول سے ان کا ذہنی میلان ہوتا ہے شاذ و نادر ہی سہی۔ بعض ماہرین قانون کا خیال ہے کہ حجاب کے فیصلے میں متعدد تضادات ہیں مثال کے طور پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موجود ہے کہ مذہبی پریکٹس خواہ اس کا ذکر مقدس کتابوں میں ہو یا نہ ہو، اسے مذہب کا جزء تسلیم کیا جائے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس کا ذکر قرآن میں ہے دوسری بات یہ کہ حجاب اسلام کی آمد سے اب تک پریکٹس میں ہے اس لئے یہ کہنا کہ اسلام کا لازمی جزء نہیں ہے ، قابل نظر ہے۔
(ا)مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے متعدد ایسے اعمال ہیں جن کا ذکر ان کی مقدس کتابوں میں نہیں ہے پھر بھی عدالت اسے مذہبی عمل تسلیم کرتی ہے، اس پر عمل ہوتا ہے اور حکومت یا کسی اور کو اعتراض نہیں ہوتا۔
(ب) عدالت عظمیٰ کی نظر میں یہ دلیل درست نہیں ہے کہ اس پر اس مذہب کے سبھی پیروکار پابندی سے عمل نہیں کرتے۔ ہر مذہب میں یہ پایا جاتا ہے کہ ایک بڑی اکثریت مذہبی تعلیمات پر عمل نہیں کرتی اس سے اس عمل کے مذہب کا جزء ہونے کی نفی نہیں ہوتی ہے۔
(ج ) اسکارف مسلم لڑکیاں استعمال کریں تو اجازت نہیں اس لئے کہ وہ حجاب ہے اور مقدس کتاب قرآن کریم میں اس پر عمل نہ کرنے والیوں کے لئے سزا نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شریعت کا لازمی جزء نہیں ہے ! لیکن اگر وہی اسکارف غیر مسلم لڑکی سر پر ڈال لے تو وہ حجاب نہیں چنری کہلاتی ہے وہ بھی ممنوع ہوگی یا نہیں ؟ اس طرح کے متعدد قانونی شق کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے میں بحث کے موضوع بنے ہوئے ہیں۔
2- حجاب پر پابندی دستوری حق آزادی لباس کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ اپنے حقوق اور ایسے مسائل کو لے کر ماضی میں مرکزی ملی تنظیموں کا نمائندہ وفد وزیراعظم سے ملاقات کرتا تھا ، ممبران پارلیمنٹ سے ایوان میں بحث کرایا جاتا تھا لیکن نہ جانے کیوں مرکز میں بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد سے یہ عمل ترک کر دیا گیا اور سیدھے عدالت کا رخ کرنا بہتر سمجھا جانے لگا جس کے بارے میں بعض ریٹائرڈ فاضل ججز کا کہنا ہے کہ اس میں زیر اثر فیصلے کے امکانات ہوتے ہیں اس لئے جو حقوق واضح ہیں یعنی جن میں عدالت کی جانب سے تشریح کی ضرورت نہیں ہے ان میں عدالت جانے کی بجائے حکومت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)