نئی دہلی: 16اہریل:وقف ترمیمی قانون سے متعلق۔ بدھ کو سپریم کورٹ کی کارروائی پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی نے کہا کہ وقف ایک مذہبی امانت ہے، جس پر سرکاری اجارہ داری اور وقف کی حیثیت بدلنے کا کوئی جواز نہیں۔ ہم عدالت سے انصاف کے متمنی ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ دستور ہند کے تحت ہمارے مذہبی و آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام اقلیتوں کی مذہبی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ نے اپنی مجلس عاملہ میں اس قانون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا تھا ، اس وقت بھی وقف بائی یوزر کے تحت لاکھوں جائیدادوں کا مسئلہ زیر تشویش رہا ۔آج چیف جسٹس نے ہماری اس تشویش کو تقویت دی ہے ۔تاہم ہمیں عدالت سے انصاف اور آئین کی حکمرانی کی امید ہے ۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف بدھ کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی سمیت مختلف جماعتوں اور شخصیات کی طرف سے دائر عرضیوں پر سماعت کا آغاز کیا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین رکنی بنچ نےفریقین کے دلائل دوگھنٹوںتک بغور سنا۔ جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی ( عرضی نمبر ۳۱۷/۲۰۲۵) میں معروف سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے کی جب کہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ منصور علی خاں ہیں ۔ وکیلوں نے عدالت میں وقف ایکٹ کی متعدد خامیوں کو اجاگرکیا
عدالت نے عندیہ دیا کہ وہ عبوری حکم دینے پر غور کرے گی تاکہ وقف املاک کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ چیف جسٹس نے واضح طور پر نوٹ کیا کہ اگر وقف بائی یوزر کی بنیاد پر تسلیم شدہ املاک کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور بہت بڑی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس دوران ایسی کسی کارروائی سے گریز کیا جائے جو ناقابل تغیراثرات کی حامل ہیں ۔عدالت کے سامنے یہ بات بھی رکھی گئی کہ نئے قانون کے تحت کلکٹر کو زمین کی تفتیش کے دوران وقف کے درجے کو معطل کرنے کا اختیار دیا گیا ہےجو مسلم مذہبی امور میں غیر ضروری مداخلت کے مترادف ہے۔عدالت نے اس با ت کو بھی بغور سنا اور اس کی سنگینی کا ادراک کیا ۔
کیس کی سماعت کل یعنی 17 اپریل 2025 کو دوپہر 2 بجے دوبارہ شروع ہوگی۔(سورس:پریس ریلیز)