اقوام متحدہ میں لبنانی مشن نے کل انکشاف کیا کہ لبنان میں اس ہفتے پیجر اور واکی ٹاکی ریڈیو مواصلاتی آلات میں دھماکے جن کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے تھے کو الیکٹرانک پیغامات کے ذریعے انجام دیےگیا تھایہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا توپوں اور میزائلوں کی جنگوں کی بجائے الیکٹرانک جنگوں کا رخ کرنے لگی ہے؟۔
کیا ایسی جنگ کے تصور کو قبول کرنا آسان ہے جو انٹرنیٹ کو مفلوج کر دے اور دنیا کی جام کردے۔ کیونکہ آج کی دنیا ڈیجیٹلائزیشن اور تکنیکی انقلاب کے سہارے پرقائم اور انٹرنیٹ زندگی کے تمام شعبوں بالخصوص بینکوں، ہوائی اڈوں اور آپریشن بجلی اور پانی کے اسٹیشنوں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے؟۔
*مستقبل کی جنگیں
مصری ماہر ڈاکٹر محمد محسن رمضان جو سائبر سکیورٹی اور سائبر کرائم ایڈوائزر ہیں نے کہا کہ سائبر وار دنیا کو مفلوج کر سکتی ہے۔ سائبر وار بینکوں، ہوائی اڈوں اور اسٹاک ایکسچینج کو مفلوج کر سکتی ہے، کیونکہ یہ ادارے سائبر نظام پر انحصار کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا سے منسلک ہیں، انٹرنیٹ آف تھنگز اور مصنوعی ذہانت کے تناظر میں الیکٹرانک سسٹمز اور سافٹ ویئر پر بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایسے اداروں کے اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے والے حملے سسٹم میں خلل، ڈیٹا کا نقصان، نیٹ ورک کی دخول، یا عام طور پر مالیاتی اور لاجسٹک آپریشنز میں خلل کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک جنگ اور سائبر وارفیئر میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔
*الیکٹرانک جنگ
انہوں نےکہا کہ الیکٹرانک جنگ سے مراد روایتی طور پر برقی مقناطیسی سپیکٹرم کا استعمال ہے اور اس میں مواصلات اور ریڈار سسٹم کو الجھانے یا ان میں خلل ڈالنے یا سگنلز کے ذریعے انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے لیے برقی مقناطیسی تابکاری کی تمام ممکنہ مقدار شامل ہیں، یعنی یہ برقی مقناطیسی تعدد کے استعمال پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔
*سائبر جنگ
ڈاکٹر محسن رمضان نے نشاندہی کی کہ سائبر جنگ کا انحصار انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ذریعے کیے جانے والے حملوں پر ہے۔ اس جنگ میں اہم انفراسٹرکچر میں خلل ڈالنے کے لیے وائرس، مالویئر، اور الیکٹرانک مداخلتوں کا استعمال شامل ہے، یا معلومات چوری کرنے یا نظام کو غیر فعال کرنے کے لیے سرکاری نیٹ ورکس اور نجی اداروں میں دراندازی کرنا شامل ہے۔