اعظم گڑھ، : جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی ) کے زیر اہتمام مدرسہ تحفظ کانفرنس کے دوران جمعیۃ کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنی طویل تقریر میں اہل مدارس کو کئی اہم مشورے دیے جن کی جانب انہیں لگاتار متوجہ کیا جاتا رہا ہے واضح رہے کہ اس وقت مشرقی یوپی انہدامی کارروائی سے سب سے زیادہ متاثر ہے – سرکار اعداوشمار کے مطابق ساڑھے چار سو ‘غیرقانونی’ مذہبی مقامات مسمار کیے جاچکے ہیں جن میں مدارس بھی ہیں
مولانا مدنی نے اپنے پرانے بیان کو دہراتے ہویے کہا کہ سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود مدارس کے خلاف کارروائی توہین عدالت ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مدارس کے تحفظ کے لیے ہماری لڑائی قانونی طور پر جاری رہے گی۔ اس دوران آپ نے مدرسہ چلانے والوں سے دستاویزات درست کرنے کو کہا۔مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی اس پابندی کے باوجود مدارس، درگاہوں، عیدگاہوں اور قبرستانوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی بلا روک ٹوک جاری ہے۔ سینکڑوں مدارس کو غیر آئینی قرار دے کر سیل کر دیا گیا ہے اور کئی مدارس کو مسمار بھی کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی یہ مہم سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔کہا کہ ہم عدالت کی کس پناہ میں ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت عدالت کے احکامات پر عمل کرے۔ انہوں نے عوام سے درخواست کی کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے کے بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور اگر مدارس یا مساجد میں کچھ قانونی خامیاں ہیں تو ان کوتاہیوں کو دور کیا جائے تاکہ حکومت کارروائی نہ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش سے لے کر اتراکھنڈ، آسام اور ہریانہ تک مذہب کی بنیاد پر مدارس اور مساجد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں یہ امتیازی سلوک اور ناانصافی کیوں؟ جب کہ آئین نے تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور مواقع فراہم کیے ہیں۔ مولانا مدنی نے واضح کیا کہ یہ سب کچھ ایک خاص نظریے کے تحت ہورہا ہے۔ ارشد مدنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مدارس مسلمانوں کی لائف لائن ہیں۔ حکومت ہماری لائف لائن کاٹنے کی سازش کر رہی ہے۔ نیز مدارس کو غیر آئینی قرار دینے اور ان کے خلاف کارروائی کی تازہ ترین مہم سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہے۔ سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہم جمہوریت، آئین کی بالادستی اور مدارس کے تحفظ کے لیے قانونی اور جمہوری جدوجہجاری رکھیں گے۔