تجزیہ:عدیل اختر
( نوٹ:ایران ـ اسرائیل جنگ اور اس کے بعد اچانک جنگبندی کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جارہا ہے ،یہ مضمون بھی اسی پس منظر میں لکھا گیا ہے ،اسے ایک نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ،روزنامہ خبریں کا اس کے مندرجات سے اتفاق ضروری نہیں ،فاضل مضمون نگار نے کچھ سوال اٹھائے ہیں ،اس کا جواب دینے والوں کا خیر مقدم ہے ادارہ )
ایران اور اسرائیل کے درمیان پہلی بارسنجیدہ اور سنگین جنگ ہوئی۔ اس جنگ سے یہ مفروضہ اور تاثر بری طرح مجروح ہوا کہ امریکہ و اسرائیل سے ایران کی دشمنی محض دکھاوا ہے اور درون خانہ باہمی مفاہمت کا تعلق ہے۔ یہ مفروضہ بلا سبب نہیں تھا بلکہ اس وجہ سے تھا کہ آس پاس کی عرب اور غیر عرب سنی آبادیوں کے ساتھ ایران حکومت کا برتاؤ تشویشناک، مشکوک رہا ہے، مثلاً عراق وشام میں ایران حکومت اور اس کی ملیشیاؤں کو سنی عوام پر وحشیانہ مظالم کا مرتکب پایا گیا ہے۔ خاص طور سےشام میں حافظ الاسد اور اس کے بیٹے بشا رالاسد کے ظالمانہ نظام کو قائم رکھنے کے لئے عوام کے بے دریغ قتل عام کے الزام کو غلط ثابت کرنا ایران کے لئے ممکن نہیں ہے۔ حالانکہ اسد خاندان کا تعلق نصیری فرقے سے ہے جسےشیعہ علماء کی اکثریت ایک الگ مذہب کہتی ہےاور اس فرقےکو اس کے عقائد اور رسوم کی وجہ سےخارج از اسلام مانا گیا ہے۔ چنانچہ اسد حکومت کے ساتھ ایران حکومت کی ساجھے داری سنی دانشوروں کے لئے ناقابلِ فہم رہی ہے ۔
1979 میں جب امام خمینی کی قیادت میں ایران میں مذہبی انقلاب آیا یعنی رضا شاہ پہلوی کے بادشاہی اور لامذہبی نظام کی جگہ شریعت پر مبنی شورائی عوامی حکومت قائم ہوئی اور ملک کو اسلامک ریپبلک آف ایران قرار دیا گیا تو سنی دنیا کی اسلامی اور اصلاحی تحریکوں نے اس کا خیر مقدم اور پرجوش تائید کی تھی۔ اس حوالے سے سب سے بڑا اور نمایاں نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ہے جنہوں نے یہ کہہ کر امام خمینی کے اسلامی انقلاب کی تحسین و تائید کی تھی کہ شیعہ فرقے کے علماء اگر اپنی مخصوص فقہ اور عقائد کی بنیاد پر ملک میں شرعی قوانین نافذ کرتے ہیں تو یہ اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ عوام پر فاسق و فاجر اور دین مخالف بادشاہ مطلق العنان حکمرانی کریں یا ایک سیکولر جمھوریت قائم ہو۔ حالانکہ دقیانوسی سنیوں میں، جو مولانا مودودی کو پہلے ہی مسترد کئے ہوئے تھے، ایران کے اسلامی انقلاب سے کوئی دل چسپی نہیں تھی اور مولانا مودودی کی تائید کی وجہ سے وہ مزید بیزار رہے۔ تاہم اسلامی تحریکات کے زیر اثر سنی دنیا میں شیعہ سنی اتحاد اور ایران کی مذہبی حکومت کے تئیں نرم گوشہ پیدا ہوا۔ امام خمینی کے دئے نعروں "لا شرقیہ لا غربیہ: اسلامیہ اسلامیہ” اور "موت بر امریکہ موت بر رشیہ” نے بھی مسلم دنیا میں ایک غلغلہ پیدا کیا۔ امام خمینی شیعہ دنیا میں اصلاح اور اسلامی بیداری کے علم بردار بن کر نمودار ہوئے تھے جس کے مثبت اثرات پوری دنیامیں سنی اور شیعہ تعلقات پر پڑے۔
لیکن پھر ایران میں ایک داخلی کشمکشِ شروع ہوئی ایک طرف سیکولر اور لبرل لوگوں کا دباؤ اور دوسری طرف قدامت پسند فرقہ پرست شیعوں کی طرف سے سنیوں کے تئیں خمینی کی رواداری پر لگام لگانے کی کوششیں انقلاب ایران کے مقاصد کو نقصان پہنچاتی رہیں ۔ ادھر سنی دنیا کے دقیانوس اور فرقہ پرست یہ باور کراتے رہے کہ ایران کے انقلاب پسند شیعہ تقیہ سے کام لیتے ہیں سنیوں سے اتحاد اور خیر خواہی کا حقیقی جذبہ ان کے اندر نہیں ہے ۔ اسی پس و پیش میں آخر کار خمینی صاحب اور ان کے ہم عصر دنیا سے گزرتے گئے اور انقلاب کے بعد کی نسلوں سے تعلق رکھنے والے قائدین ان کی جگہ لیتے رہے ۔ بتدریج آنے والی اس تبدیلی کے اثرات ایران کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں بھی محسوس کئے جاتے رہے ۔ ایران میں سنیوں کے ساتھ نامناسب مغائرانہ سلوک کی شکایتیں عام ہونے لگیں اور اسلامی تحریکوں کے قائدین میں بھی تحفظات پیدا ہوتے گئے۔
امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ساتھ ایران کی دشمنی خمینی انقلاب کے روزاول سے ہی چلی آرہی ہے ۔ انقلاب کے فوری بعد عراق کے صدر صدام حسین کے ذریعے ایران کے خلاف چھیڑی گئی جنگ کو امریکہ و اسرائیل کی سازش کے طور پر ہی دیکھا گیا تھا حالانکہ اس کا خمیازہ آخر کار خود عراق اور صدام حسین کو ہی زیادہ بھگتنا پڑا۔ لیکن یہ جنگ عرب و عجم اور شیعہ و سنی جنگ بنادی گئی تھی۔ اور تبھی سے عرب ملکوں کو سنیوں کا محافظ اور ایران کو شیعہ خطرے کے طور پر پروجیکٹ کیا جاتا رہا ہے ۔ اور مسلم دنیا کو شیعہ و سنی خیموں میں تقسیم رکھنے کی سیاست چلتی رہی ہے ۔
2013 میں جب بعض عرب ممالک میں عوامی بغاوت شروع ہوئی اور شام میں بھی سنی اکثریتی عوام نے بشارالاسد کے ظالمانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی جدو جہد کی تو اس میں ایران اور اس کی پراکسی ملیشیاؤں کا جو رول رہا اس سے مسلم دنیا میں سنی شیعہ اتحاد اور سیاسی اصلاحات کے ضمن میں ایران کی بدلی ہوئی پوزیشن عیاں ہوئی اور ایران کی نیت کے بارے میں شکوک وشبہات کو تقویت پہنچی۔ ان شکوک وشبہات کو ہوا دینے والے عناصر امریکہ و اسرائیل سے ایران کی اعلانیہ دشمنی کو بھی صرف دکھاوا کہتے رہے ہیں اور یہ کہتے رہے ہیں کہ ایران کی اسرائیل و امریکہ سے کوئی حقیقی جنگ کبھی نہیں ہوگی۔ مگر 12دن تک ایک دوسرے پر لگاتار خوفناک اور نقصان دہ بمباری نےان لوگوں کو غلط ثابت کیا اور سنی دنیا میں ایران کے تئیں ہمدردی اور اظہار تعلق کی ایک نئی فضا قائم ہوئی جس کی خاص وجہ غزہ و فلسطین کے سنی العقیدہ مسلمانوں پر ناجائز یہودی ریاست کے بے مثال مظالم ہیں اور اس سلسلے میں سنی ممالک کے حکمرانوں کی بے نیازی و بے عملی نیز درپردہ اسرائیل و امریکہ کے ساتھ مدد و حمایت کے مجرمانہ تعلقات ہیں ۔
تاہم یہ ایران اسرائیل جنگ اور اس کا اچانک سے رک جانا خود اپنے آپ میں ایک معمہ ہے ۔ اس جنگ میں شروع سے آخر تک مرکزی کردار امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا رہا ہے ۔ ایک پلے بوائے کی شہرت رکھنے والے ٹرمپ نے ہی اس جنگ کی شروعات کے لئے ہری جھنڈی دکھائی اور اچانک یہ کہنا شروع کیا تھا کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے والا ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام سے دست بردار ہونے کے سمجھوتے پر دستخط کردیے ۔ ایران نے اس دھمکی کا جواب دھمکیوں سے دینا شروع کیا تو اچانک سے اسرائیل نے ایران پر خطرناک حملہ کرکے جنگ شروع کردی۔ پھر 12دنوں تک دونوں طرف سے ہونے والے حملوں و جوابی حملوں میں جب ایران کا پلڑا بھاری رہا تو پلے بوائے نے اعلان کردیا کہ ہم نے ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کردیا ہے اور اب امن ہی امن ہوگا ۔ اور واقعی امن قائم ہو گیا ، جنگ تھم گئی ۔ مگر اس پورے ڈرامے کے بارے میں ایسے متعدد سوالات ہیں جن کا نہ تو جواب کسی کے پاس ہے اور نہ ان سوالوں کو چھیڑا جا رہا ہے ۔ ان میں سب سے اہم سوال ایران کے موقف اور پوزیشن کا ہے۔ کیا ایران کی ایٹمی تنصیبات پر مبینہ حملہ اس جنگ میں اسرائیل کے حلیف اور محافظ کی طرف سے فیصلہ کن وار تھا جس کے بعد ایران کی کمر ٹوٹ گئی ؟ اگر یہی بات ہے تو اس جنگ میں ایران کو فتحیاب کیوں مانا جائے گا, یہ ایران کی شکست کیوں نہیں ہے؟ اگر یہ ایران کی شکست ہےتو اس کا مطلب یہ کیوں نہ لیا جاۓ کہ ایران کی بیان بازیاں اور جوابی دھمکیاں محض زبانی جمع خرچ تھا اور انکل سام کے ایک ہی وار سے اس کی ثابت قدمی اور عزم مقابلہ کا بھرم ٹوٹ گیا۔
یہ بات یوں بھی عیاں تھی اور بعد میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی کہ ظاہر میں اچانک ہونے والی جنگ بندی اصل میں درپردہ مذاکرات اور صلح امن کے نتیجے میں ہوئی ہے ۔ اس صورت میں یہ سوال فطری طور سے پیدا ہوتا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان کیا ڈیل ہوئی ہے ؟ ایران نے زخم کھانے کے بعد لڑائی سے ہاتھ کیوں روکا ؟ اور یہ کہ اس ڈیل پر ایران کو آمادہ کرنے کے لئے کیا ایک تباہ کن حملے کی ضرورت تھی؟ امریکہ نے اگر واقعی اپنی دانست میں ایران کی ایٹمی صلاحیت کو فی الحال ختم کردیا ہے تو پھر امریکہ و اسرائیل نے اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے اور ایران کے خلاف جنگ کا مقصد پورا ہو گیا ہے ۔پھر اتنی بڑی ہزیمت کے بعد مذاکرات میں ایران کوکیا حاصل ہوا؟
یہ بات بھی واضح ہے کہ امریکہ و اسرائیل کی مہم ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس مرحلے سے گزر کر نئے مراحل کی طرف پیش قدمی ہو رہی ہے ۔ "نئے مشرق وسطیٰ کے لئے نئے مواقع” کی بات تیزی سے شروع ہو گئی ہے اور وہ ہے "ابراہم ایکارڈ” کو منظورکرنے کے لئے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو آمادہ کرنا۔ یہ ابراہم ایکارڈ ظاہر میں تو ابراہیمی مذاہبِ کے پیروکاروں کے درمیان اتحاد واتفاق کا عنوان ہے لیکن یہ اتحاد و اتفاق حقیقت میں اسرائیل و امریکہ کے منصوبوں کو پورا کرنے کے لئے ان کا ساتھ دینے کا نام ہے اور وہ منصوبہ ہے عظیم تر اسرائیل کا قیام یعنی لبنان سے لے کر یمن تک اسرائیل کی چودھراہٹ کو تسلیم کرنا اور اپنی اپنی مملکتوں کو اس کے ماتحت رکھنا ۔ اس میں عقائد اور نظریات کی تبدیلی بھی شامل ہے یعنی یہودیوں و عیسائیوں کو مغضوب علیہم ولااضالین قرار نہ دینا اور محض دین اسلام کو دین حق نہ ماننا ۔ اس کی اور بھی تفصیلات ہیں جن کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے ۔
چنانچہ حاصل نتیجہ یہ ہے کہ ایران و اسرائیل کے مابین جنگ شروع ہونا اور پھر اچانک سے تھم جانا ڈیپ اسٹیٹس کے نادیدہ حکمرانوں کا ایک مخفی اور پر اسرار گیم ہے جس کے بارے میں فی الحال قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جاسکتی سوائے اس کے کہ اس جنگ کا تعلق غزہ کا انتقام لینے یا غزہ کا مسئلہ حل کرنے سے بالکل نہیں تھا جیساکہ کچھ جوشیلے لوگوں نے سمجھ رکھا تھا اور ایران کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ غزہ میں جنگ بندی کی شرط رکھے بغیر جنگ مت روکنا۔