اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی منگل کو دونوں ممالک کے درمیان 12 دن کی غیر معمولی جھڑپوں کے بعد نافذ ہوئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی دونوں فریقوں کے درمیان اس وقت شروع ہوئی جب دونوں نے جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بعض مبصرین نے اس معاہدے کو تنازع میں شامل تمام فریقوں کے لیے بہترین فارمولے کے طور پر دیکھا ہےگزشتہ دنوں میں ہونے والے نقصانات دونوں فریقوں کے لیے مختلف درجوں تک بھاری رہے ہیں۔ اس جنگ میں اسرائیل کو روزانہ سینکڑوں ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے کیونکہ ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے لیے انٹرسیپٹر میزائلوں کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق یہ لاگت یومیہ 200 ملین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔
تل ابیب میں انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی سٹڈیز کے ایک سینئر محقق یہوشوا کالسکی کے مطابق ڈیوڈز سلنگ سسٹم جو مختصر اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو مار گراتا ہے کو ایک مرتبہ ایکٹیویٹ کرنے کی لاقت تقریبا 7 لاکھ ڈالر ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق کالسکی نے کہا ہے کہ ’’ ایرو تھری‘‘ سسٹم ایک اور نظام ہے جو محاذ آرائی کے دوران طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کو مار گرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی لاگت تقریباً 4 ملین ڈالر فی مداخلت ہے۔ ’’ ایرو ٹو ‘‘ سسٹم کی لاگت تقریباً تین ملین ڈالر فی مداخلت ہے۔
مادی نقصان :اسرائیل میں خاص طور پر تل ابیب، حیفا اور بیر السبع میں تباہ شدہ عمارتوں کی مرمت پر لاگت کا تخمینہ 400 ملین ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ اگرچہ تصادم کے دوران تقریباً 30 اسرائیلی مارے گئے ہیں لیکن ایران میں جانی نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ کئی فوجی اور جوہری مقامات اور دیگر مقامات کو زیادہ مادی نقصان پہنچا ہے۔ لاگت بلاشبہ زیادہ ہے اور اربوں ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ جوہری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان کی صحیح حد ابھی تک معلوم نہیں ہے۔تاہم ان جوہری مقامات کے قیام کے لیے برسوں سے جاری کوششوں پر تہران کی اربوں کی لاگت آئی تھی اور ان کی تعمیر نو بلاشبہ بہت مہنگی ہوگی۔ تاہم تہران کو سب سے زیادہ قیمت اس کے انسانی نقصانات کے ذریعے اٹھانی پڑی۔ ایران میں تقریباً 650 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں