امریکی نیوز چینل "سی این این” نے منگل کے روز امریکی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ نئی خفیہ معلومات سے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ بات معروف برطانوی خبر رساں ایجنسی کے حوالے سے بتائی گئی۔
چینل نے امریکی حکام کے حوالے سے مزید بتایا کہ یہ واضح نہیں کہ آیا اسرائیلی قیادت نے اس حملے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کر لیا ہے یا نہیں۔ ایک اسرائیلی ذریعے نے "سی این این” کو بتایا کہ اسرائیل، ایران کے ساتھ کسی "ناقص معاہدے” کو قبول نہیں کرے گا، اور یہ کہ اسرائیل تنِ تنہا ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ تہران کے ساتھ سفارتی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل واقعی ایسا حملہ کرتا ہے تو یہ صدر ٹرمپ کی حکمتِ عملی سے واضح انحراف ہو گا اور اس کا نتیجہ مشرقِ وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر تصادم کی صورت میں نکل سکتا ہے، جس سے امریکہ بچنا چاہتا ہے۔ بالخصوص جب کہ 2023 کی غزہ جنگ کے بعد پورے خطے میں تناؤ پہلے ہی بڑھ چکا ہے۔ یہ بات جرمن خبر رساں ایجنسی کے حوالے سے بتائی گئی۔
امریکی حکام نے مزید کہا کہ اس حملے کے سلسلے میں اسرائیلی قیادت کی طرف سے کوئی حتمی قدم اٹھائے جانے کا ثبوت فی الحال موجود نہیں، اور خود امریکی انتظامیہ میں بھی اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اسرائیل اس قدر سنگین قدم اٹھائے گا یا نہیں۔ یہ فیصلہ بڑی حد تک اس بات پر منحصر ہے کہ اسرائیل، ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق امریکی مذاکرات کو کیسے دیکھتا ہے۔خفیہ معلومات سے واقف ایک ذریعے نے بتایا کہ گذشتہ مہینوں میں ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کے امکانات نمایاں طور پر بڑھ گئے ہیں، اور اگر ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والا ممکنہ معاہدہ ایرانی یورینیم کے مکمل خاتمے کی ضمانت نہ دے سکا، تو اسرائیلی حملے کا خطرہ اور بڑھ جائے گا۔
ادھر ایران کے تین ذرائع نے منگل کو بتایا کہ اگر جوہری تنازع کو حل کرنے کی موجودہ کوششیں ناکام ہو گئیں، تو ایرانی قیادت کے پاس کوئی واضح متبادل منصوبہ موجود نہیں۔ موجودہ وقت میں ایران اور امریکہ کے درمیان یورینیم کی افزودگی کے مسئلے پر کشیدگی کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایران بطور متبادل چین اور روس کی طرف رخ کر سکتا ہے، لیکن چوں کہ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ جاری ہے اور روس یوکرین جنگ میں الجھا ہوا ہے، اس لیے ایران کا یہ متبادل منصوبہ کمزور نظر آتا ہے۔