ایسا نظر آتا ہے کہ اسرائیلی فوج محصور غزہ کے تقریباً 70 سے 75 فی صد حصے پر تین ماہ کے اندر کنٹرول حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جو اس کی وسیع فوجی مہم کا حصہ ہے۔
"غزہ کے قبضے کا منصوبہ”
اسرائیلی اخبار "اسرائیل ہیوم” کے مطابق، فوج کے ایک نئے منصوبے سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کی پٹی کو تقسیم کرنے، زمین پر قبضہ کرنے، اور پھر ایک ایسی مرحلہ وار کارروائی پر مشتمل ہے جسے "تطہیر” کا نام دیا گیا ہے، جو کئی ماہ جاری رہے گی۔اس منصوبے میں تین ماہ کے اندر غزہ کے زیادہ تر علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کا ماڈل شامل ہے۔ اس کارروائی میں پانچ فوجی دستے حصہ لیں گے جن میں چار حملہ آور اور ایک دفاعی دستہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ممکنہ یرغمالیوں کی رہائی کی کسی متوقع ڈیل کی صورت میں کارروائی روکنے کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، فوج ہر اس علاقے میں رفح ماڈل کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جہاں وہ پہنچے گی۔یہ سب ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا کے دباؤ اور مذاکراتی جمود کے باعث اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دی ہے۔
اگرچہ امدادی مراکز ابھی فعال نہیں ہوئے، البتہ بدھ کے روز 100 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے، منگل کو 93 اور اس سے ایک دن قبل 5 ٹرک داخل ہوئے۔ آئندہ دنوں میں مزید ٹرکوں کے داخل ہونے کی توقع ہے۔
اسرائیل کا وفد مذاکرات سے واپس
جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعرات کے روز قطر سے اسرائیلی وفد کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ ان کے مطابق "حماس کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق بالواسطہ مذاکرات میں جمود برقرار ہے”، جیسا کہ متعدد عبرانی ذرائع نے بتایا۔رپورٹس کے مطابق، وزیراعظم نے دوحہ سے وفد کی واپسی کا حکم دیا کیوں کہ ان کے بقول حماس جنگ کے خاتمے کی امریکی ضمانتوں پر اصرار کر رہی ہے۔اسی دوران ایک اسرائیلی عہدے دار نے تصدیق کی کہ مذاکرات بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں۔
مزید یہ کہ اسرائیل دوبارہ دوحہ واپس جانے کو تیار ہے اگر حماس، وِٹکوف کی اس تجویز سے اتفاق کرے جس کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے غزہ میں قید آدھے زندہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 40 دن سے زائد جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور جنگ کے اختتام سے متعلق مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔