اسرائیل نے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کو خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ہفتے ہونے والے دورۂ مشرق وسطیٰ سے پہلے غزہ کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے نہ پایا تو وہ ایک نئی اور وسیع فوجی کارروائی شروع کرے گا۔
اسرائیلی دفاعی امور کے ایک سینئر عہدیدار نے پیر کے روز کہا کہ ٹرمپ کی آمد کے موقع پر ایک "اہم موقع” موجود ہے جس سے غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کے حوالے سے معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ تاہم اگر یہ موقع ضائع ہو گیا تو اسرائیل غزہ میں ایک نئی کارروائی کا آغاز کرے گا۔اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کی جانب سے غزہ میں بڑی فوجی کارروائی کی منظوری دیے جانے کے بعد مذکورہ عہدیدار نے واضح کیا کہ "اگر یرغمالیوں کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہ ہوا تو ہم ‘عربات جدعون’ نامی آپریشن پوری شدت سے شروع کریں گے اور یہ کارروائی اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک اپنے تمام مقاصد حاصل نہ کر لیں”۔
یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب اتوار کی شب اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے ایک منصوبے کی منظوری دی ہے جس میں غزہ میں کارروائی کو وسعت دینے، مکمل قبضے اور "رضاکارانہ ہجرت” کے تصور کو تقویت دینے کی بات کی گئی ہے۔ ایک اعلیٰ سیاسی ذمہ دار نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ یہ منصوبہ کئی نکات پر مشتمل ہے، جن میں غزہ پر فوجی کنٹرول، جنوبی علاقے میں شہریوں کی منتقلی اور سخت حملے شامل ہیں۔اس منصوبے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ بنجمن نیتن یاھو امریکی صدر ٹرمپ کی اس تجویز کو فروغ دے رہے ہیں جس میں غزہ کے باسیوں کی مصر یا اردن جیسے ہمسایہ ممالک کی طرف "رضاکارانہ ہجرت” کا ذکر ہے۔
دوسری جانب حماس نے 17 اپریل کو اسرائیلی تجویز مسترد کر دی تھی جس میں 45 دن کی عارضی جنگ بندی کے بدلے 10 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ شامل تھا۔ حماس کا مؤقف تھا کہ وہ صرف اس شرط پر معاہدہ کرے گی جب مکمل جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا انخلا اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کا اصولی معاہدہ ہوگا۔قابض اسرائیل اس کے برعکس صرف محدود جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور حماس و دیگر فلسطینی تنظیموں کو غیر مسلح کرنے پر زور دے رہا ہے۔ تاہم وہ جنگ مکمل طور پر روکنے یا فوجی انخلاء کی ضمانت دینے کے لیےتیار نہیں۔