چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گوائی نے آئین کو "سیاہی میں پر امن انقلاب” اور ایک تبدیلی کی طاقت کے طور پر بیان کیا جو نہ صرف حقوق کی ضمانت دیتا ہے بلکہ تاریخی طور پر مظلوموں کو فعال طور پر بلند کرتا ہے۔ ہندی اخبار پتریکا کے مطابق وہ آکسفورڈ یونین میں ‘نمائندگی سے عمل درآمد تک: آئین کے وعدے کی تکمیل’ کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے۔
بی آر گوائی نے ‘عدالتی سرگرمی’ سے ‘عدالتی دہشت گردی’ کی طرف جانے کے خلاف بھی خبردار کیا۔ انہوں نے یہ بات ایک قانونی ویب سائٹ بار اینڈ بنچ bar&bench کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
•••’عدلیہ کو عدالتی دہشت گردی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے‘: چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی نے کہا کہ اگرچہ جوڈیشل ایکٹوازم ہندوستان میں متعلقہ ہے، لیکن عدلیہ کے لیے ایسے علاقے میں قدم رکھنا اچھی بات نہیں ہوگی جہاں اسے داخل نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم برقرار رہے گا لیکن اس کے ساتھ جوڈیشل ایکٹوازم کو عدالتی دہشت گردی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔ بعض اوقات آپ لکیر عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی ایسے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جہاں عدلیہ کو عام طور پر داخل نہیں ہونا چاہیے۔’انہوں نے کہا کہ اگر مقننہ یا ایگزیکٹو عوام کے حقوق کے تحفظ کے اپنے فرض میں ناکام رہے تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔ تاہم، چیف جسٹس گوائی نے کہا کہ عدالتی نظرثانی کی طاقت کا استعمال صرف غیر معمولی معاملات میں کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو اس طاقت (جوڈیشل ریویو) کو بہت محدود علاقے اور انتہائی غیر معمولی معاملات میں استعمال کرنا چاہیے۔ مثالیں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی قانون آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتا ہے یا آئین کے کسی بنیادی حق سے براہ راست ٹکراؤ میں آتا ہے یا قانون انتہائی من مانی یا امتیازی ہے تو عدالتیں اسے استعمال کر سکتی ہیں اور عدالتوں نے بھی ایسا کیا ہے۔