آپریشن سندور کے بعد اویسی کی شخصیت زیادہ سنجیدہ اور زیادہ راشٹر بھکت’ ہوگئی ہے وہ جس طرح سے سرکار کے پہلو میں کھڑے ہوکر پاکستان کی خبر لے رہے تھے ہندوتووادیوں کے دل میں الگ جگہ بنالی ہے یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات کیتلی چائے سے زیادہ گرم نظر آتی تھی بہرحال اویسی اور ان کی پارٹی زیادہ دم خم کے ساتھ بہار الیکشن میں اترنا چاہتی ہے اس نے ایک بڑا داؤ کھیلا ہے ـ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ داؤ بھی کسی کی خواہش ا پر کھیلا ہے – بہار کی سیاست ایک بار پھر کروٹ لے رہی ہے۔ الیکشن قریب ہیں۔ مہاگٹھ بندھن این ڈی اے کے خلاف اپنی بساط بچھا رہا ہے۔: اسد الدین اویسی۔ اے آئی ایم آئی ایم کے بہار کے صدر اختر الایمان نے حال ہی میں لالو پرساد یادو کو ایک خط لکھا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ہمیں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے اکٹھا ہونا چاہئے۔ ان کی پارٹی مہاگٹھ بندھن کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا چاہتی ہے ـاب اگر وہ ان کو گلے نہیں لگاتا تو اویسی یہ کہنے کو آزاد ہوں گے کہ ہم نے تو کوشش کی تھی مل کر لڑیں ،لیکن وہی راضی نہیں ہوئے ،ہمارے پاس الگ لڑنے کے علاؤہ اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لالو یادو اویسی کی پارٹی کو گلے لگا لیں گے؟ معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ ان کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی والا معاملہ ہے -اے آئی ایم آئی ایم بھلے ہی بی جے پی کے خلاف ہو، لیکن مہاگٹھ بندھن کی کئی پارٹیاں، بشمول آر جے ڈی، کو لگتا ہے کہ اویسی کی پارٹی لڑائی کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ خاص طور پر سیمانچل میں۔لالو یادو کی پارٹی کی بنیاد یادو اور مسلم ووٹروں پر ہے۔ وہیں مسلم علاقوں میں اویسی کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ اگر اے آئی ایم آئی ایم کو ساتھ لیا جائے تو مسلم ووٹوں کا بڑا حصہ لالو کے بجائے اویسی کے کھاتے میں جا سکتا ہے۔ لالو یا تیجسوی شاید یہ سیاسی خطرہ مول لینا نہ چاہیں ۔
وہیں لیکن اگر آر جے ڈی اویسی کی پیشکش کو ٹھکرا دیتی ہے تو اسے اس کی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم نے سیمانچل میں 5 سیٹیں جیتی تھیں۔ یہ وہ سیٹیں تھیں جن پر کانگریس اور آر جے ڈی جیتنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔اویسی نے بہار میں 18 امیدوار کھڑے کیے تھے، جن میں سے 14 سیمانچل میں تھے۔ ان میں سے 5 جیت گئے۔ پارٹی نے امور، بایسی، کوچا دھامن، بہادر گنج اور جوکی ہاٹ پر قبضہ کر لیا۔ یہ نتائج یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی تھے کہ اے آئی ایم آئی ایم اب سیمانچل کی سیاست میں ‘سنجیدہ کھلاڑی’ بن چکی ہے۔