تجزیہ: محمد خالد*
ملک کے موجودہ حالات سیاسی، سماجی اور معاشی لحاظ سے تشویشناک بنے ہوئے ہیں. پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اندر بھی جس قسم کی مہاز آرائی کی صورت بنی ہوئی ھے اسے مہذب معاشرے کے خلاف ہی مانا جانا چاہئے. اس سب کیفیت نے ملک کے حقیقی مسائل پر پردہ ڈال رکھا ھے. مہنگائی اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رھا ھے جس کی وجہ سے ملک پر مالیاتی اداروں کے قرض کا کیا ذکر کیا جائے، ملک کے بجٹ کا بیس فیصد حصہ صرف قرض کا سود ادا کرنے پر خرچ ہو رھا ھے. سرکاری دفاتر میں ملازمین کی تعداد ضرورت سے کافی کم ھے جس کی وجہ سے کسی بھی کام کا وقت پر ہونا ایک بڑا مسئلہ ھے. سپریم کورٹ سے لے کر نچلی عدالتوں تک میں پانچ کروڑ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں تقریباً دو لاکھ ایسے مقدمات ہیں جو کہ تیس سال سے زائد عرصہ سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں. جیلوں میں قیدیوں کی تعداد تقریباً پونے چھ لاکھ ھے جن میں تقریباً پچھتر فیصد زیر تفتیش قیدی ہیں. اور زیادہ تر معاملات میں اس کی وجہ متعلقہ محکموں کی جانب سے وقت پر کارروائی کا نہ ہونا ھے.اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رھے ہیں.
یوں تو ملک آزاد ہونے کے بعد سے ہی مسلمانان ہند کے سامنے مختلف قسم کے مسائل پے در پے آتے رھے ہیں مگر اُن مسائل کو ہمیشہ اتفاقی طور پر وجود میں آنے والا مانا جاتا رھا ھے.اکیسویں صدی کے اوائل سے ہی مسلمانوں کے مسائل کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھا جا رھا ھے اور ایک عام تاثر قائم ہو گیا ھے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہنما مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف تسلسل سے مسائل پیدا کئے جا رھے ہیں.
اس تاثر کو غلط یا صحیح ثابت کرنے کے بجائے حالات کی حقیقی کیفیت کو سمجھنے کی ضرورت ھے.
مسلمانوں کے درمیان آر ایس ایس کی حیثیت ہمیشہ ایک منفی سوال ہی رہی ھے اور اس حوالے سے ہی مسلمان انتخابات میں آر ایس ایس کی سیاسی جماعت جن سنگھ کے مقابلے دیگر سیاسی جماعتوں کو پسند کرتے رھے تھے. پھر جنتا پارٹی کے دور حکومت میں جن سنگھ کا نام تو تبدیل ہو کر بھارتیہ جنتا پارٹی ہو گیا تھا مگر اس کے طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی جس کی وجہ سے بی جے پی کے تئیں مسلمانوں کے موقف میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی. مگر 1988 میں جب مسلم تنظیموں اور شخصیات نے اعلانیہ طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ مسلمان اس کو ووٹ دے گا جو بی جے پی کو ہرا رھا ہو تو پھر مسلمان اور بی جے پی کا ایک دوسرے کے مدمقابل بن جانے میں کسی طرح کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی.
یہ تلخ حقیقت ھے کہ مسلمانوں کے اس موقف کا بی جے پی کو بہت فائدہ ہوا اور اس نے حالات کی نبض کو ٹٹولتے ہوئے خود کو ہندو مذہب کو فروغ دینے والی سیاسی جماعت کی شناخت اختیار کر لی جس کے ذریعے اسے ہندوؤں کو متحد کرنے کا ایک آسان سا طریقہ حاصل ہو گیا. 1988 کے ارد گرد ہی بابری مسجد کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا اور اس کے نتیجے میں 1992 میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا. جس کی وجہ سے ایک عام مسلمان بھی بی جے پی سے نالاں ہو گیا. اس صورت نے ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ مسلمان اور بی جے پی نواز ہندوؤں کے درمیان فاصلہ نہ صرف پیدا ہوا بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہوتا گیا. سیاسی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو اس پوری کیفیت نے مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے ہاشیہ پر پہنچا دیا. افسوس کہ مسلمانوں کی کسی بھی تنظیم یا ادارے نے اس کیفیت کا جائزہ لینے اور اس کے نفع نقصان کو سمجھنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی. دوسری طرف مسلمانوں کی ماب لنچنگ سے لے کر مساجد کو نشانہ بنانے اور مختلف انداز میں مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کے لئے لگاتار جو کچھ ہوتا جا رھا ھے اس کو سمجھنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ھے. گزشتہ چند ماہ سے ایک نیا سلسلہ مسجدوں میں مندر کی تلاش کی شکل میں شروع ہوا ھے جس پر ہندو اور مسلمان لیڈران ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر رھے ہیں.
ان سب حالات کے باوجود اس ملک کے مزاج میں ابھی بھی ایک دوسرے سے تعلق رکھنا اور ایک دوسرے کے جذبات کا پاس و لحاظ رکھنا موجود ھے.
آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت گزشتہ دنوں میں دو بار بیان دے چکے ہیں کہ ہر مسجد کے نیچے مورتی یا مندر کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا صحیح کام نہیں ھے. اپنے تازہ بیان میں تو انہوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ بابری مسجد کے معاملے کا بھی ذکر کیا، گرچہ یہ ان کا استدلال ھے جس کو تسلیم کرنے کی گنجائش نہیں ھے. مگر کیا مسلمانوں کی جانب سے اس طرح کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ھے. ظاہر ھے کہ یہ صورت حال دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ھے تو جب تک دونوں جانب سے ایک دوسرے کی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اچھا ماحول بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی تب تک کسی مثبت نتیجے کی امید کر پانا ممکن نہیں ھے.
مسلمانان ہند نے مختلف قسم کے سماجی مسائل کا حل تلاش کرنے کی غرض سے 1964 میں مسلم مجلس مشاورت کے نام سے ایک وفاق بنایا تھا جس میں مسلم تنظیموں اور شخصیات کی بڑی تعداد شامل ہوئی تھی اور ماضی میں اس کے ذریعے بہت اہم کارہائے نمایاں انجام دئے گئے ہیں اس لئے ملک میں اس وقت کے پیچیدہ معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے مسلم مجلس مشاورت جیسے وفاق کو اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش شروع کرنا چاہئے. مسلمان اس ملک کے شہری ہونے کے ساتھ ہی دینی ذمہ داری کے تحت تمام انسانوں اور مخلوقات کے لئے بھی خیر خواہ ہیں. اس لئے ضروری ھے کہ رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اختیار کرتے ہوئے معاشرتی مسائل کے حل کے لئے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مختلف انداز کے معاہدوں کی کوشش شروع کی جائے. اسلامی تاریخ میں غیر مسلموں کے ساتھ معاشرتی معاہدوں کی تفصیلات موجود ہیں جن میں بڑی اکثریت ایسے معاہدوں کی ھے جن میں فریق مخالف سے نہ تو کوئی مذہبی ٹکراؤ تھا اور نہ ہی مفاہمت اور یہ بھی ایک قابل تقلید حقیقت ھے کہ معاہدہ اعظم "صلح حدیبیہ” اُن لوگوں کے ساتھ کیا گیا تھا جو کہ مسلمانوں اور اسلام کو مٹا دینے کا عزم رکھتے تھے.کیا ملت اسلامیہ ہند کے موجودہ قائدین اسوہ نبوی کو اختیار کرنے کی زحمت فرمائیں گے؟
**سکریٹری جنرل
انسٹیٹیوٹ فار سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ (اشو)