اسرائیل کے بے لگام ہو جانے سے مشرقِ وسطیٰ میں مکمل جنگ کا خطرہ مزید زور پکڑ گیا ہے۔ اسرائیل نے جدید ترین ٹیکنالوجیز کو جنگی حکمتِ عملی کا حصہ بناکر برتری حاصل کرلی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس بات کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے کہ کئی ممالک سے اس پر حملے ہوں گے۔
غزہ کی پٹی کو تاراج کرنے کے بعد اسرائیلی فوج نے اب جنوبی لبنان کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ وہاں سے بہت بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوچکی ہے۔ جنوبی لبنان سے نکل کر پناہ کی تلاش میں کم و بیش پچاس ہزار افراد شام میں داخل ہوئے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد شامی باشندوں کی ہے۔ غیر ملکی باشندوں کو لبنان سے نکالنے کا عمل بھی تیز ہوگیا ہے۔ ویتنام، جاپان اور دوسرے بہت سے ملکوں نے اپنے باشندوں سے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد لبنان سے نکل آئیں۔ ویتنام کے گیارہ ہزار سے زائد باشندے لبنان میں ہیں۔ جاپان نے بھی خصوصی پروازیں چلانے کا اعلان کیا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت سے ایران میں عوامی جذبات بھڑک اٹھے ہیں۔ لبنان میں بھی اس حوالے سے شدید ردِعمل پایا جاتا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اسرائیل کو ان سارے کارروائیوں کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔
اسرائیل کی پوزیشن بظاہر مستحکم ہے۔ وہ بہت بڑے پیمانے پر طاقت استعمال کرکے جنوبی لبنان کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ لبنانی دارالحکومت کے سویلین علاقے میں حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹرز پر حملے میں اسرائیل نے بھرپور قوت استعمال کی ہے۔ چار بڑی عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک ایک ٹن بارودی مواد والے 80 بم گرائے گئے ہیں۔ کلسٹر بم بھی مارے گئے جو زمین میں بہت نیچے تک جاکر تباہی پھیلاتے ہیں۔
بتایا جارہا ہے کہ حسن نصراللہ جس بنکر میں تھے وہ زمین میں اُتنا ہی نیچے تھا جتنی زمین کے اوپر ساتویں منزل ہوتی ہے۔ بم وہاں تک پہنچا اور تباہی مچائی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے اپنے خلاف کھڑے ہونے والوں کو کچلنے ک لیے کس قدر طاقت استعمال کرنے کی ٹھانی ہے اور یہ کہ اُسے روکنے والا اس وقت کوئی نہیں۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جن قوتوں سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ اسرائیل کو روکیں وہی تو اُسے شہہ دے رہی ہیں۔ امریکا اور یورپ مکمل طور پر اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں کیونکہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی تباہی چاہتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں جتنا زیادہ عدم استحکام ہوگا، مسلم دنیا میں اُتنی ہی زیادہ پریشانی پائی جائے گی۔
اسرائیل نے جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے حملے کرکے جنگ کو نئی جہت دی ہے۔ بہت سے حلقے یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ جدید ترین ٹیکنالوجیز والے ہتھیاروں کے استعمال ہونے والی سویلین ہلاکتیں صریح جنگی جرائم ہیں۔ غزہ میں خواتین اور بچوں کو بے دردی سے سفاکی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ اب جنوبی لبنان میں بھی عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کوئی مسلم ملک معمولی سی بھی غلطی کر بیٹھے تو اُس کے خلاف پابندیوں کا نفاذ کردیا جاتا ہے مگر اسرائیل کے لیے ایسا کوئی قانون متحرک نہیں۔ اقوام متحدہ کا کردار محض خاموش تماشائی کا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عالمی ضمیر مرچکا ہے۔
اسرائیل جو کچھ بھی کر رہا ہے اُس کے نتیجے میں غیر معمولی نوعیت کی تباہی واقع ہوگی۔ اگر اسرائیل یونہی بے لگام رہا اور غیر متعلق اور غیر متحارب شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتا رہا تو بہت جلد اسرائیل پر ہر طرف سے بہت زیادہ حملے ہونے لگیں گے۔ ان حملوں سے اسرائیل میں تباہی مچے گی۔ اگر اس کے جواب میں وہ مزید ملکوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو مشرقِ وسطیٰ کا یہ قضیہ مکمل جنگ میں تبدیل ہوسکا ہے۔ اگر امریکا اور یورپ نے مداخلت کی تو معاملات بہت بگڑیں گے اور ایسے میں علاقائی سطح یا پھر عالمی جنگ بھی چھڑسکتی ہے۔
عالمی برادری پر لازم ہوچکا ہے کہ اسرائیل کو لگام دے، اُسے طاقت کے بے محابا استعمال سے روکے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں بدستور ناکام رہی تو یہ مناقشہ بہت جلد مکمل جنگ کی شکل اختیار کرکے کئی ممالک کو لپیٹ میں لے لے گا۔ امریکا اور یورپ کے لیے اس وقت کسی نئی جنگ میں الجھنا انتہائی دشوار امر ہے کیونکہ روس نے یوکرین پر جو جنگ مسلط کر رکھی ہے اُس کے چلتے کسی نئی جنگ میں کودنے کی گنجائش نہیں۔
اسرائیل اور یورپ کی طرف سے اسرائیل کو دی جانے والی کھلی چھوٹ مسلم دنیا میں مزید اشتعال پیدا کرے گی۔ مسلم حکمرانوں پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ غزہ اور لبنان کی صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران اپنے اپنے کمفرٹ زون سے باہر آئیں، اسرائیل کو لگام ڈالنے کی اپنی سی کوشش بھی کریں اور عالمی برادری کو اس حوالے انگیج کریں تاکہ امریکا اور یورپ بھی اسرائیل کی پشت پناہی سے باز رہنے کے لیے دباؤ بڑھایا جاسکے۔