نئی دہلی:کرکٹ ورلڈ کپ میں لگاتار 10 میچ جیتنے کے بعد بھارت فائنل میچ آسٹریلیا سے ہار گیا۔ اس شکست کے بعد پورا ملک صدمے میں ہے۔ دراصل کسی کو نہیں لگتا تھا کہ فائنل میں ہندوستان ہار جائے گا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ کرکٹ قسمت کا کھیل ہے اور فائنل میں قسمت آسٹریلیا کے ساتھ تھی۔ روہت شرما کا بطور کپتان رپورٹ کارڈ اب کرکٹ شائقین کے سامنے ہے۔ اب ایسا ہی میچ سیاسی پچ پر ہونے جا رہا ہے۔ اس میچ پر بھی پورے ملک کی نظریں ہیں۔ سیاسی مقابلے میں بی جے پی کو اہم ٹیم سمجھا جاتا ہے اور اس ٹیم کے کپتان پی ایم مودی ہیں۔ اس سیاسی مقابلے کے سیمی فائنل کے نتائج کا اعلان رواں سال 3 دسمبر کو کیا جائے گا اور فائنل اگلے سال ہوگا۔ آئیے آپ کو سارا سیاسی کھیل سمجھاتے ہیں۔
ورلڈ کپ فائنل میں شکست کے بعد پی ایم مودی نے خود ٹیم انڈیا کے کھلاڑیوں کو گلے لگا کر تسلی دی۔ لیکن اب خود پی ایم مودی کو ایک بڑے امتحان سے گزرنا ہے۔ اگر وہ ہارگئے تو ان کو کون گلے لگائے گا۔یہ امتحان اس سال پانچ ریاستوں کے اسمبلی نتائج میں بی جے پی کی کارکردگی سے متعلق ہے۔ اس سال مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، میزورم اور تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات ہیں۔ میزورم کو چھوڑ کر تمام 4 ریاستوں میں بی جے پی پی ایم مودی کے چہرے پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ ان ریاستوں میں نومبر میں ووٹنگ ہوگی اور نتائج 3 دسمبر کو آئیں گے۔
مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے ‘مودی ایم پی کے دماغ میں ہے’ کا نعرہ دیا ہے۔ ایسے میں اگر بی جے پی کو یہاں کامیابی نہیں ملتی ہے تو شکست کی ذمہ داری پی ایم مودی پر ہی عائد ہوگی۔ راجستھان میں بھی بی جے پی پی ایم مودی کے چہرے پر ووٹ مانگ رہی ہے۔ بی جے پی لیڈر ہمنتا بسوا سرما نے راجستھان کے نادبائی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ‘مجھے یقین ہے کہ اگر مودی جی اگلے دس سال تک وزیر اعظم رہے تو ہندوستان امریکہ اور چین کو پیچھے چھوڑ دے گا اور ‘وشو گرو’ بن جائے گا۔ .’ چھتیس گڑھ میں بھی پی ایم مودی انتخابی ریلیاں کرکے کانگریس پر مسلسل حملہ کررہے ہیں۔ تلنگانہ کے انتخابی جلسوں میں بھی بی جے پی نریندر مودی کے مرکز کے کاموں کا حوالہ دے کر عوام سے ووٹ کی اپیل کر رہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی نے پوری طرح سے پی ایم مودی پر داو لگا دیا ہے
مدھیہ پردیش کو چھوڑ کر دیگر 4 انتخابی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے۔ بی جے پی کو اگلے سال لوک سبھا انتخابات سے پہلے مدھیہ پردیش میں واپسی کرنی ہے۔ اس کے علاوہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے انتخابات بھی جیتنے ہیں۔ بی جے پی ان ریاستوں میں جیت کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی نے مرکزی وزراء کو میدان میں اتارا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اسمبلی الیکشن بی جے پی کے لیے ایک سیمی فائنل ہے اور ان انتخابات کو جیتنے کی حکمت عملی براہ راست دہلی بی جے پی ہیڈکوارٹر سے طے کی جا رہی ہے۔بطور کپتاُن پی ایم کی ساکھ داو پر لگی ہے-