تحریر: رفیق مانگٹ
اسرائیلی ایجنسی کے ’’مخالف رہنمائوں ‘‘کو قتل کرنے کے ہوشرباطریقوں کی طویل تاریخ ہے جس میں پھٹنے والی کتابیں، زہر آلود ٹوتھ پیسٹ، بوبی ٹریپس، مفلوج کرنے والی دوائیں،لیٹر بم،پیجر، واکی ٹاکی اورمصنوعی ذہانت والی بندوقوں سے نشانہ بنایا گیا۔
ان حملوں میں جو رہنما شہید ہوئے ان میں حزب اللہ کے سربراہ نصراللہ،حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ، حماس کے ملٹری ونگ کے سربراہ محمد دائف، حماس کے نائب سربراہ صالح العروری، حزب اللہ کے سینئر کمانڈر فواد شکر، راکٹ یونٹ کے کمانڈر ابراہیم قبیسی ، آپریشن کمانڈر ابراہیم عقیل، نگراں رضوان فورس احمد وہابی، کمانڈر قدس فورس محمد رضازاہدی، کمانڈر عزیز یونٹ محمد نصر، کمانڈر نصر یونٹ طالب عبداللہ کے علاوہ متعدد اور رہنما بھی شامل ہیں۔
برطانوی اخبار’’ٹیلی گراف، فنانشل ٹائمز، جریدہ ’دی ویک‘، امریکی ٹی وی این بی سی،اور سی بی سی‘‘ میں شائع رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے قیام کے ایک سال بعد 1949 میں تشکیل دی گئی موساد کی سات دہائیوں کے دوران اپنے اہداف کوقتل کرنے کی تکنیکوں کی طویل تاریخ ہے جس میں پھٹنے والی کتابوں، وگ، لیٹر بم، بوبی ٹریپس، مفلوج کرنے والی دوائیں، دھماکا خیز مواد سے لیس تربیت یافتہ کتے، ریموٹ کنٹرول مشین گنیں، زہر آلود ٹوتھ پیسٹ، مسلح ڈرونز، قاتل مواصلاتی آلات جیسا کہ پیجرز، واکی ٹاکی، موبائل فونزاور مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والی روبوٹک بندوقیں شامل ہیں۔
اسرائیل کی بڑی کارروائیوں میں سے کچھ میں روایتی ہتھیار یا دھماکہ خیز مواد شامل نہیں ۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خطے میں متعدد اعلیٰ شخصیات کی شہادتوں کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا گیا۔
رپورٹس کے مطابق لبنان بھر میں سینکڑوں پیجرز اچانک پھٹ گئے، پہلا شک اسرائیل پر گیا، 17,18 ستمبر کے ان دھماکوں میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور تقریباً 3ہزار زخمی ہوئے۔
نیویارک ٹائمز نے کہا اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سال سے ایک دوسرے پرحملوں کے بعد، لبنان میں لوگ سمجھتے ہیں کہ پھٹنے والے پیجرز کے پیچھے موساد کا ہاتھ ہے۔ لبنان میں پھٹنے والے پیجرز اور واکی ٹاکی کی اسرائیل نےذمہ داری قبول نہیں کی ۔
مغربی حکام اور سابق انٹیلی جنس افسران کا کہنا ہے اسرائیل نے ہائی ٹیک ٹولز کا استعمال کیا۔ اس کے 10دن بعد، حزب اللہ سربراہ نصراللہ خود بیروت میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر ایک بڑے اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوگئے۔
7 اکتوبر 2023کو اسرائیل پر حماس حملے کے بعد سے، اسرائیل نے اپنی خفیہ کارروائیوں کو تیز کر دیا ، جس میں حماس اور حزب اللہ کی سینئر شخصیات کے ساتھ ساتھ شام کا دورہ کرنے والے ایرانی جنرلوں کو ڈرون حملوں میں شہید کر دیا گیا۔
ایران اس وقت دنگ رہ گیا جب حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ تہران میں ایک بم دھماکے میں شہید ہو گئے۔
امریکی ٹی وی این بی سی کے مطابق 1948 میں ملک کے قیام سے پہلے ہی، صیہونی زیرزمین تحریک نے برطانوی فوجی افسران اور پولیس کو یہودی ریاست کے قیام میں رکاوٹ سمجھ کر قتل کر دیا۔اسرائیلی انٹیلی جنس نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہولوکاسٹ کے ماسٹر مائنڈ، نازی افسر ایڈولف ایچ مین پر توجہ مرکوز کی، جس نے لاکھوں یہودیوں کو موت کے کیمپوں میں بھیجا۔
1960 میں، موساد نے ارجنٹائن میں اس کا سراغ لگایا، اسے پکڑا، بے ہوش کیا، اسے اسرائیلی فلائٹ عملے کی وردی پہنا کر اسرائیل لایا گیا، ہولوکاسٹ کے درجنوں متاثرین کی گواہی کے ساتھ مقدمے میں مجرم قرار دے کر پھانسی دے دی گئی۔
سن 2012 میں، ایک دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا گیا کہ سابق عراقی صدر صدام حسین کے خلاف سترکی دہائی میں اسرائیلی قتل کی ناکام سازش میں دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک کتاب شامل تھی۔
دستاویزی فلم، سیلڈ ہونٹ، نے بتایا کہ صدام نے کتاب کو کھولنے سے انکار کر دیا، انہوں نے اپنےاہلکار کو یہ کتاب دے دی، جیسے ہی اہلکار نے کتاب کھولی، وہ پھٹ گئی، جس سے اہلکار ہلاک ہو گیا۔ اے ایف پی نے بھی اس کی تصدیق کی کہ صدام حسین کے خلاف 1970 کی دہائی میں اسرائیلی قتل کی ناکام سازش میں دھماکہ خیز کتاب شامل تھی۔
1960 کی دہائی کے اوائل میں، اسرائیل مصر میں ایک راکٹ پروگرام سے گھبرا گیا جس میں جرمن سائنسدانوں کی تکنیکی مہارت کو شامل کیا گیا۔ آپریشن ڈیموکلز میں موساد نے جرمن سائنسدانوں کے پیچھے لیٹر بموں سے حملہ کیا اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دیں۔مصر نے 1963 میں راکٹ پروگرام ختم کردیا۔
فلسطینی کمانڈر وادی حداد کو قتل کرنے کے لیے زہرآلود ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کیا گیا۔نیویارک ٹائمز کے صحافی رونن برگمین کی کتاب رائز اینڈ کِل فرسٹ: دی سیکرٹ ہسٹری آف اسرائیل کے ٹارگٹڈ اسسیشنز کے مطابق موساد نے1978 میں، حداد کے گھر تک رسائی حاصل کی اور اس کے ٹوتھ پیسٹ کو ایک جیسی ٹیوب میں تبدیل کر دیا، جب بھی وہ اپنے دانت صاف کرتا تھا تو زہر اس کے مسوڑھوں کے ذریعے داخل ہوتا جس کی وجہ سے اسے عراق کے اسپتال لے جایا جاتا۔
بالآخر مشرقی جرمنی میں علاج کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں کو اس کے بیت الخلاء کے تھیلے میں مشکوک ٹوتھ پیسٹ ملا۔ اس کی موت مبینہ طور پر سست اور تکلیف دہ تھی، اس کی چیخیں اسپتال کے راہداریوں سے سنی گئیں، جہاں 10 دن بعد ان کی شہادت ہوگئی۔ 1972 میں فلسطینی گروپ نے میونخ میں اولمپکس کے دوران 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو یرغمال بنا لیا۔ تمام یرغمالی مارے گئے – یہ واقعہ میونخ قتل عام کے نام سے مشہور ہوا۔
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن سے انتقام لینے کے لیے اسرائیل نے آپریشن غضب خدا Operation Wrath of Godکا آغاز کیا۔ پیرس میں پی ایل او کے نمائندے محمود حمشری کے زیر استعمال فون کے ماربل بیس کوتبدیل کر دیا۔ جب اس نے فون کا جواب دیا تو، ایک قریبی اسرائیلی ٹیم نے ریپلیکا بیس کے اندر بھرے دھماکا خیز مواد کو دور سے اڑا دیا۔ حمشری نے ایک ٹانگ کھو دی اور بعد میں انتقال کر گئے۔
این بی سی ٹی وی کے مطابق بیروت میں کارروائی کےلئےاس مہم میں ٹیمیں کشتی کے ذریعے ساحل سمندر پر پہنچیں۔ ایہود باراک، جو وزیراعظم بننا چاہتے تھے، چھاپے کی قیادت کر رہے تھے، وہ ایک عورت کے بھیس میں گہری براؤن بالوں والی وگ پہنے تھے۔
نیویارک ٹائمز نے کہا کہ 2004 میں، اسرائیل نے موساد کوایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کا حکم دیا۔ اگلے چند برسوں میں، ایجنسی نے ایران کی جوہری تنصیبات پر تخریب کاری اور سائبر حملوں کی مہم چلائی، اور پروگرام میں شامل سائنسدانوں کو نشانے پر لیا ، ایجنٹوں نے پانچ ایٹمی سائنسدانوں کو شہید اور ایک کو زخمی کر دیا، انتہا 2020 میں ہوئی۔
سی بی سی نیوز کے مطابق پک اپ ٹرک پر نصب ریموٹ سے چلنے والی مشین گن نے ایران کے اعلیٰ جوہری سائنسدان، محسن فخر زادہ کو شہید کر دیا۔ ایران نے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا۔ مشین گن کو ٹکڑوں میں اسمگل کیا گیا۔ 2000 کی دہائی میں ایران کےمتعدد سائنس دان موٹر سائیکل سواروں کے ہاتھوں شہید ہوگئے جنہوں نے مقناطیسی بموں کو کاروں سے جوڑ دیا۔
2010 میں، متحدہ عرب امارات کی پولیس نے موساد کے ایجنٹوں پر حماس کے سینئر کارکن محمود المبحوح کو دبئی کے ایک لگژری ہوٹل کے کمرے میں شہید کرنے کا الزام لگایا۔ ہٹ اسکواڈ نے ٹینس کھلاڑی کے روپ میں جعلی پاسپورٹ پر مختلف یورپی مقامات سے دبئی تک پرواز کی۔
اس کے بعد انہوں نے مفلوج کرنے والی دوا کا استعمال کرتے ہوئے مبحوح کو شہیدکر دیا اور اس کی لاش ہوٹل میں چھوڑ دی
حزب اللہ کے اعلیٰ فوجی کمانڈر فواد شکر کو بیروت میں حماس کے دیرینہ سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے 31 جولائی کو تہران میں شہید ہونے سے چند گھنٹے قبل شہیدکر دیا گیا ۔ اسرائیل نے شکر کو قتل کرنے کا اعتراف کیا، لیکن اس نے کبھی عوامی طور پر ہنیہ کی شہادت کا دعویٰ نہیں کیا، حالانکہ امریکی حکام نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ان دونوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔