••تلنگانہ ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط فہمی پیدا کرنے والا
*تجزیہ :مولانا محمد رضی الاسلام ندوی
میڈیا کی خبروں میں تلنگانہ ہائی کورٹ کا فیصلہ چرچا کا موضوع بنا ہوا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ مسلم خواتین کو خلع کا مطلق اور غیر مشروط حق حاصل ہے اور اس کے لیے شوہر کی منظوری یا رضا مندی لازمی نہیں – جسٹس موسومی بھٹاچاریہ اور جسٹس بی آر مادھو سدھن راؤ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ‘محمد عارف علی بہ مقابلہ اسماء افسر النساء’ کیس کی سماعت کے دوران یہ فیصلہ سنایا ۔ کورٹ نے کہا ہے کہ اسلامی قانون کے مطابق خلع ایک ایسا طریقۂ کار ہے جس کے ذریعے مسلم عورت نکاح ختم کر سکتی ہے اور اس کے لیے شوہر کی رضامندی کی ضرورت نہیں ۔ کورٹ نے مزید کہا کہ فیملی کورٹ کا کردار صرف اس بات کی جانچ کرنا ہوتا ہے کہ خلع کا مطالبہ جائز ہے یا نہیں اور کیا صلح کی سنجیدہ کوشش کی گئی یا بیوی کی طرف سے مہر کی واپسی کی پیش کش کی گئی ہے یا نہیں ۔ یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے میں سنایا گیا ہے جس میں ایک شوہر نے فیملی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس نے اس کی اُس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں اُس نے خلع نامہ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا تھا ، جو اس کی بیوی نے ایک غیر سرکاری تنظیم (صدائے حق شرعی کونسل) کے ذریعہ حاصل کیا تھا ۔ بیوی نے شوہر کے خلع منظور کرنے سے انکار کے بعد مذکورہ کونسل سے رجوع کیا تھا ۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کی تفصیلات سامنے نہیں ہیں – میڈیا میں جو بیانات نقل کیے گئے ہیں وہ غلط فہمی پیدا کرنے والے ہیں – اگر عدالت کے فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان عورت خلع چاہے تو اسے شوہر سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ، وہ اپنے میکے چلی جائے یا شوہر سے الگ ہوجائے اور اعلان کردے کہ اس نے خلع لے لیا ہے ، پھر وہ جہاں چاہے اپنا دوسرا نکاح کرنے کے لیے آزاد ہے تو یہ اسلامی شریعت کی درست ترجمانی نہیں ہے – نکاح کا ایک پہلو عبادت کا ہے – دوسرے پہلو سے وہ ایک سماجی معاہدہ (Social Contract) ہے ، جو دوسرے معاہدوں کی طرح وقتِ ضرورت ختم کیا جاسکتا ہے – اگر بیوی شوہر کے ساتھ رہنا چاہے ، لیکن شوہر کسی وجہ سے نکاح ختم کرنے پر آمادہ ہو تو وہ ‘طلاق’ دے سکتا ہے – اگر شوہر بیوی کو ساتھ میں رکھنا چاہے ، لیکن بیوی علیٰحدہ ہونے پر بہ ضد ہو تو وہ ‘خلع’ لے سکتی ہے – اگر دونوں اس نتیجے پر پہنچ گئے ہوں کہ وہ ساتھ رہ کر خوش گوار زندگی نہیں گزار سکتے تو آپسی رضامندی سے علیٰحدہ ہوسکتے ہیں – اسے ‘مباراۃ’ (Mutual Separation) کا نام دیا گیا ہے –
چوں کہ اسلام میں نکاح کے نتیجے میں تمام تر ذمے داریاں مرد سے متعلق کی گئی ہیں : وہ مہر دیتا ہے ، عورت کے لیے رہائش (سُکنی) فراہم کرتا ہے ، روزمرّہ کے مصارف (نفقہ) اٹھاتا ہے اور دیگر ضروریات پوری کرتا ہے ، اس لیے طلاق اور خلع کے معاملے میں تھوڑا فرق رکھا گیا ہے – طلاق گویا شوہر کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ میں اب آئندہ نکاح کی ذمے داریاں نہیں اٹھاؤں گا – خلع کے ذریعے عورت کو بھی نکاح ختم کرنے اور شوہر سے علیٰحدہ ہونے کا حق دیا گیا ہے – اگر رشتے میں ہم آہنگی نہ ہو ، شوہر ظلم کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے عورت اس کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ یہ حق استعمال کرسکتی ہے – وہ شوہر سے کہے کہ میں اب نکاح باقی رکھنا نہیں چاہتی – شوہر اس کا مطالبہ مان لے ، یا اسے طلاق دے دے تو نکاح ختم ہوجاتا ہے – خلع ایک ‘طلاق بائن’ کے حکم میں ہے ، یعنی بعد میں عورت کی مرضی ہو تو دوبارہ ان کا نکاح ہوسکتا ہے – ایک فرق یہ ہے کہ طلاق کی صورت میں شوہر مہر واپس نہیں لے سکتا ، جب کہ خلع کی صورت میں شوہر کے مطالبے پر عورت کو مہر واپس کرنا ہوگا –
صحیح بات یہ ہے کہ عورت کے مطالبۂ خلع کو نہ ماننے کا شوہر کو حق نہیں ہے – عورت خلع کا مطالبہ کرے تو یا تو شوہر اسے نکاح میں رہنے پر راضی کرنے کی کوشش کرے ، یا اگر عورت بہ ضد ہو اور ہر حال میں علیٰحدگی چاہے تو اس کا مطالبۂ خلع منظور کرے – رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے عہد میں خلع کے کئی واقعات پیش آئے – عورتوں نے خلع کا مطالبہ کیا تو شوہروں کو بلاکر اسے نافذ کروادیا گیا اور انہیں مہر واپس دلوادیا گیا – لیکن اس سے یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ مسلمان عورت کو خلع کا مطلق اختیار حاصل ہے – وہ ناراض ہوکر شوہر سے علیٰحدہ ہوجائے اور بس سمجھ لے کہ نکاح ختم ہوگیا ، اب وہ اپنی مرضی سے دوسرا نکاح کرسکتی ہے ، بلکہ وہ شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے گی – اگر شوہر اس کے مطالبۂ خلع کو منظور نہ کرے تو وہ اسلامی عدالت سے رجوع کرے گی اور عدالت عورت کی گلو خلاصی کے لیے اس کی مدد کرے گی اور شوہر کو خلع کا مطالبہ ماننے پر مجبور کرے گی -ہندوستان میں دار القضاء کو بہت محدود اختیارات حاصل ہیں – وہ اس کے دائرے میں رہتے ہوئے خلع کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے – آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت پورے ملک میں سو (١٠٠) سے کچھ کم دار القضاء قائم ہیں – اوّلاً عائلی تنازعات کو زوجین اپنی حد تک شریعت کے مطابق حل کریں – وہ کام یاب نہ ہوں تو دونوں کے اہل خاندان مل جل کر تنازعہ کو ختم کرنے کی کوشش کریں – قرآن مجید کی تعلیم یہ ہے کہ نکاح باقی رہنے کا معاملہ ہو یا ختم کرنے کا ، اسے معروف طریقے سے اور خوب صورتی کے ساتھ انجام دیا جائے – اہلِ خاندان بھی تنازعہ حل کرنے میں کام یاب نہ ہوں تو دار القضاء سے رجوع کرنا چاہیے –
فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیات 228 اور 229 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام بیوی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ نکاح کو اپنے طور پر ختم کر سکتی ہے ، شوہر کی منظوری اس عمل کے لیے شرط نہیں ہے ۔ لیکن ان کی یہ بات درست نہیں ہے – قرآن عورت کو خلع کے ذریعے نکاح ختم کرنے اور شوہر سے علیحدہ ہونے کا حق دیتا ہے ، لیکن یہ حق مطلق اور غیر مشروط نہیں ہے ، بلکہ اس کے لیے اسے شوہر سے رجوع کرنا اور اس کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہوگا – اس موضوع پر راقم سطور نے ایک تفصیلی مقالہ لکھا ہے ، جو سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے جنوری – مارچ 2023 میں شائع ہوا تھا – اس شمارے کو درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے 👇
https://www.tahqeeqat.net/issues.asp
*سکریٹری شریعہ کونسل
جماعت اسلامی ہند