دوٹوک: قاسم سید
افغان وزیرِ خارجہ کا دورہ ہند ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پورا خطہ ایک نئی صف بندی (Realignment) کے عمل سے گزر رہا ہے۔ پاکستان سے بھارت اور افغانستان دونوں کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں،امریکہ بگرام ائیر بیس پر نظریں گڑائے بیٹھا ہے افغانستان کی سرزمین اب صرف داخلی سیاست کا مرکز نہیں رہی بلکہ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک جغرافیائی، سیاسی اور اسٹریٹیجک چوراہا بن چکی ہے۔ ایسے میں کابل سے آنے والا کوئی بھی اشارہ یا قدم محض ایک سفارتی سرگرمی نہیں بلکہ آنے والے دنوں کے توازنِ طاقت، خطے کی سلامتی اور معاشی راہداریوں کی سمت طے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان وزیرِ خارجہ کا یہ دورہ اپنی بظاہر محدود سفارتی نوعیت کے باوجود غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں "افغانستان کی داخلی تنہائی” اور "علاقائی یکجہتی” کے درمیان موجود لکیر دھندلی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ کے اس دورے کی اصل معنویت کیا ہے؟ کیا یہ محض برف پگھلانے کی ایک کوشش ہے یا کسی نئے سفارتی توازن کی طرف قدم؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا یہ دورہ افغانستان کو عالمی تنہائی سے نکالنے میں واقعی مدد دے سکتا ہے یا یہ ایک وقتی سیاسی منظرنامہ ہے جس کے پسِ پردہ کچھ اور عوامل کارفرما ہیں؟ ایک پیش رفت یہ ہے کہ بھارت اپنا سفارت خانے کھولنے جارہا ہے ـ
2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کو عالمی تنہائی کا سامنا ہے،چین اور روس کے بھرپور تعاون نے اسے سیاسی و معاشی استحکام ضرور بخشا ہے ۔لیکن۔تنہائی کا بوجھ کم نہیں ہوا ایسے میں متقی کا کسی ہمسایہ ملک کا دورہ اس تنہائی میں میں کمی کی ایک سنجیدہ کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ طالبان اب صرف داخلی کنٹرول کے خواہاں نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو ایک "ریاستی حقیقت” کے طور پر تسلیم کرانے کے لیے عملی سفارت کاری پر اتر آئے ہیں۔بھارت خطہ کی اہم طاقت ہے اس کی پشت پناہی طالبان سرکار کے لیے سنجیونی ہوسکتی ہے
طالبان حکومت کا سب سے بڑا چیلنج داخلی نہیں بلکہ خارجی ہے۔ اندرونی طور پر انہوں نے طاقت کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے، مگر بین الاقوامی سطح پر انہیں اب بھی "غیر نمائندہ قوت” سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف وسطی ایشیا کے ممالک مثلاً ازبکستان، ترکمانستان اور تاجکستان اپنے توانائی کے ذخائر کے لیے افغانستان کے راستے جنوبی ایشیا تک پہنچنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان، چین اور ایران خطے میں امن و استحکام کے ذریعے اپنے اقتصادی و تزویراتی منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔اسی پس منظر میں افغان وزیرِ خارجہ کا دورہ "علاقائی یکجہتی” (Regional Integration) کی سمت ایک اہم اشارہ ہے۔ یہ طالبان کی اس پالیسی کا تسلسل ہے جس میں وہ مغرب کے دروازے بند ہونے کے بعد اپنے ہمسایوں کی طرف جھکاؤ بڑھا رہے ہیں۔اگر یہ دورہ پاکستان یا ایران کا ہو تو یہ دو پہلوؤں سے اہم بن جاتا ہے — ایک، سرحدی سکیورٹی اور اسمگلنگ، منشیات اور داعش خراسان کی سرگرمیوں پر مشترکہ لائحہ عمل، اور دوسرا، تجارت و ٹرانزٹ کے وہ مسائل جو افغان عوام کی روزمرہ معیشت سے براہ راست جڑے ہیں۔ اگر یہ دورہ کسی وسطی ایشیائی ملک یا چین سے متعلق ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ طالبان اپنی سفارتی ترجیحات کو "علاقائی معیشت” کے گرد منظم کر رہے ہیں، جو مستقبل میں CPEC اور دیگر راہداریوں کے ساتھ جڑ سکتی ہیں۔افغانستان ان سب ممالک کے لیے بہت ضروری ہے وہیں اس خطہ میں آئی ایس (اگر اس کا حقیقی وجود ہے تو) وہ سب کے لیے خطرہ ہے اس کی گردن کابل ہی مروڑ سکتا ہے ،اس لیے کابل ان کی ضرورت اور مجبوری دونوں ہیں ـ ،جنہیں طالبان پسند نہیں وہ بھی اس کڑوی گولی کو حلق کے نیچے اتارنے پر مجبور ہیں ,ان میں بھارت بھی ہے جس نے طالبان کو گرچہ دہشت گرد کے زمرے میں نہیں رکھا لیکن شدید تحفظات ہمیشہ رہے
دوسرے افغانستان اس وقت معاشی طور پر مکمل بحران میں ہے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، 2021 کے بعد افغانستان کی GDP میں تقریباً 30 فیصد کمی آئی، اور 90 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بین الاقوامی پابندیاں، منجمد اثاثے، اور غیر رسمی معیشت پر انحصار نے طالبان حکومت کے لیے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے امیر متقی کا دورہ سفارت کاری سے زیادہ "معاشی رسائی” کی کوشش ہے۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط کر لیں، تو مغرب کی پابندیوں کا اثر کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
تیسرے یہ کہ طالبان کی خارجہ پالیسی اس وقت ڈیڑھ پاؤں پر کھڑی ہے۔ ایک طرف وہ چین، روس اور ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر رہے ہیں ؛ دوسری طرف وہ کسی حد تک امریکہ اور خلیجی ممالک سے "خاموش مفاہمت” برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چین نے حالیہ مہینوں میں طالبان کے ساتھ محدود مگر واضح سفارتی رابطے بڑھائے ہیں، بیجنگ نے اپنے سفیر کو کابل میں باضابطہ طور پر تعینات کیا جو ایک علامتی مگر اہم قدم تھا۔ روس، اگرچہ محتاط ہے، لیکن ماسکو فارمیٹ کے ذریعے طالبان کو خطے کی بات چیت کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔ ایران کا رویہ دو طرفہ ہے ـ وہ سرحدی مسائل پر سخت بھی ہے مگر طالبان کے ساتھ توانائی اور تجارت پر بات چیت بھی جاری ہے۔افغان وزیرِ خارجہ کے اس دورے کا ایک پہلو یہی ہے کہ وہ طالبان حکومت کو "غیر رسمی مگر عملی طور پر تسلیم شدہ ریاست” کے قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اپریشن سندور کے بعد امریکہ کے دشمنی جیسے رویہ کے سبب بھارت بھی کہیں نہ کہیں سفارتی تنہائی کا شکار ہے اور پڑوسی ملکوں سے بھی رشتے اچھے نہیں ہیں وہیں پاک افغان ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں ایسے میں کابل اس کے لیے اچھا موقع ہے یہ بھلے ہی ہو ٹرن ہو مگر سیاست اور سفارت دو الگ منطقے پر بستے ہیں ،متقی کا بھارت میں ہونا اس کا ایک مضبوط اشاریہ ہے ـ
طالبان کی قیادت اب پہلے کی نسبت زیادہ "سفارتی” لہجے میں بات کر رہی ہے۔ ابتدائی دو برسوں کی سخت بیانیہ پالیسی کے برعکس، اب وہ عالمی قوانین، سرحدی احترام، اور دوطرفہ معاہدات کی زبان استعمال کر تے ہیں۔ افغان وزیرِ خارجہ کے بیانات میں اب "جہاد” یا "قبضے” کی جگہ "تعاون”، "استحکام” اور "امن” جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ یہ تبدیلی خود اس بات کی علامت ہے کہ طالبان اب محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی سیاسی قوت کے طور پر اپنا کردار منوانا چاہتے ہیں۔
افغان وزیرِ خارجہ کا یہ دورہ مغرب کے لیے بھی ایک اشارہ ہے کہ طالبان اب علاقائی فریم ورک کے اندر خود کو منظم کر چکے ہیں، اور اگر مغرب نے تاخیر کی تو وہ اس نئے نظام سے باہر رہ جائے گا طالبان وقت ضائع نہیں کر رہے، وہ اپنی جگہ علاقائی سیاست میں بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسی اب ردِعمل پر نہیں بلکہ عمل پر مبنی ہے۔اس دورے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ افغانستان کو تنہائی کے دائرے سے نکالنے کی ایک ایسی کوشش ہے جس میں ان کے نظریاتی موقف اور عملی سیاست کے درمیان توازن قائم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
اگر طالبان اپنے رویّے میں یہی تدریجی نرمی اور عملی حکمت برقرار رکھتے ہیں، تو آنے والے برسوں میں افغانستان دوبارہ علاقائی سیاست کا فعال کھلاڑی بن سکتا ہے ـ۔ یہ دورہ طالبان حکومت کی سیاسی بلوغت اور علاقائی خود اعتمادی کا اعلان بھی ہے ،کابل پہلے سے زیادہ عملیت پسند،حقیقت نواز،سفارتی شعور اور سیاسی فہم وفراست کے ساتھ سفاک ،بے رحم اور خود غرض دنیا کا سامنا کررہے ہیں ـ











