کیرالا ہائی کورٹ نے وقف جائیدادوں پر قابضین سے متعلق ایک اہم فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ 2013 میں وقف ترمیم سے قبل اوقافی جائیدادوں پر قابض افراد کے خلاف قانونی کارروائی نہیںکی جاسکتی ہے۔ کیرالا ہائی کورٹ کے جسٹس پی وی کنی کرشنن نے فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا کہ 2013 میں وقف ترمیمی قانون کی دفعہ 52A کو شامل کیا گیا اور اس سے قبل جو افراد وقف جائیدادوں پر قابض ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے ۔ وقف بورڈ کی منظوری کے بغیر وقف اراضی کی فروخت یا منتقلی کی اجازت نہیں ہے ۔ عدالت نے دو عہدیداروں کے خلاف فوجداری کارروائی کو کالعدم کردیا جن پر وقف بورڈ کی منظوری کے بغیر اراضی کی منتقلی کا الزام ہے۔
کیرالا اسٹیٹ وقف بورڈ کی شکایت پر ڈپارٹمنٹ آف پوسٹ کے دو عہدیداروں کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کی گئی تھی۔ ہائی کورٹ نے کوزی کوڈ کی مقامی عدالت میں معاملہ کی سماعت کے دوران فوجداری کارروائی کو کالعدم کردیا اور کہا کہ پوسٹ آفس 1999 سے وقف اراضی پر قائم ہے اور سیکشن 52A میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ قانون میں ترمیم سے قبل اراضی پر قابض افراد کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزاروں کے خلاف قانونی کارروائی کو جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ وقف بورڈ نے ڈپارٹمنٹ آف پوسٹ کے دو عہدیداروں کے خلاف شکایت درج کی جس میں کہا گیا کہ 2018 میں وقف ٹریبونل کی ہدایت کے باوجود اراضی کا تخلیہ نہیں کیا گیا ۔ ڈپارٹمنٹ آف پوسٹ کے دونوں عہدیداروں نے فوجداری کارروائی کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی تھی۔