دہلی یونیورسٹی (DU) کے قانون کے چند طلباء کو پولیس نے مبینہ طور پر حراست میں لے لیا جب انہیں نئے منظور شدہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے سے روک دیا گیا۔اس اقدام سے طلباء میں غصہ پھیل گیا جنہوں نے سوال کیا کہ انہیں کیمپس میں پرامن احتجاج کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔
دہلی پولیس افسر کے ساتھ طالبات کی بحث کا ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے۔ ایک طالبہ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا، "اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ ودھیارتھی پریشد) کو ان کے پروگراموں کے لیے وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا جاتا ہے، ان کے لیے کارپٹ بچھادیا جاتا ہے لیکن ہم قانون کے طالب علم ہونے کے ناطے وقف ترمیمی ایکٹ جیسے اہم مسائل پر کچھ بول نہیں سکتے ،خاموشی اختیار کر رہے ہیں۔ پولیس ہمیں روکنے کے لیے پوری فوج کے ساتھ پہنچتی ہے۔”
آپ کو ہمارے کیمپس میں احتجاج کرنے سے روکنے کی اجازت کس نے دی؟ آپ نے کیمپس میں داخلہ کیسے حاصل کیا؟ کیا ہم کوئی غیر قانونی یا غیر آئینی کام کر رہے ہیں؟ کیا اب سوچنے کی آزادی میں بھی تبدیلی ہو رہی ہے؟ طالبہ نے دہلی پولیس افسر سے سوال کیا
واضح رہے کہ بدھ کو وقف قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں کو ہندو مذہبی ٹرسٹ کا حصہ بننے کی اجازت دی جائے گی۔
جب مرکز کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دعویٰ کیا کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ہے جو وقف ط ہمایکٹ کے تحت حکومت نہیں کرنا چاہتا، تو عدالت عظمیٰ نے یہ کہتے ہوئے پھٹکار لگائی، ’’کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ اب سے آپ مسلمانوں کو ہندو اوقاف بورڈ کا حصہ بننے دیں گے؟ کھل کر بتائیں‘‘۔