فلسطینی سفیر ریاض منصور منگل کے روز اقوام متحدہ سے خطاب کے دوران غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کی مذمت کرتے ہوئے اور بچوں کی ہلاکتوں کے افسوسناک واقعات بتاتے ہوئے ٹوٹ گئے۔اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ان کی آواز کانپنے لگی مسٹر منصور نے ڈاکٹر النجار کے خاندان کی موت سے قبل اسرائیل کی جارحیت کا حوالہ دیتے ہوئےاکہا کہ ہمیں اس قتل عام کو روکنا ہوگا
سفیر نے غزان کے معالج کے صدمے کو تفصیل سے بیان کیا، جو "ایک ڈاکٹر کے طور پر اپنے عظیم مشن کی جان بچانے کی کوشش کر رہی تھی” جب اس خاتون ڈاکٹر کے اپنے بچے اس کے ہی ہسپتال پہنچے، "ان کی لاشیں جل چکی تھیں اور پہلے ہی مردہ تھیں۔ وہ اپنے 10 بچوں میں سے 9 کو کھو چکی تھی۔ ایک خوفناک صدمے کو ذہن سمجھ نہیں سکتا۔ دل برداشت نہیں کر سکتا۔”
ریاض منصور نے مارچ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا حوالہ دیا: "1,300 سے زیادہ فلسطینی بچے ہلاک اور 4,000 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بچے، بچے ہیں… اور اب بھی بربریت کے خلاف جنگ جاری ہے،…” اس کے بعد انہوں نے فاقہ کشی کے بھیانک اثرات کا ذکر کیا: "درجنوں بچے بھوک سے مر رہے ہیں،” ماؤں کی تصویر کشی کرتے ہوئےسفیر نے کہا "ان کے بے حرکت جسموں کو گلے لگاتے ہوئے، ان کے بالوں کو سہلاتے ہوئے، ان سے بات کرتے ہوئے، ان سے معافی مانگتے ہوئے”۔ سفیر نے اپنے خاندان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "کوئی اس دکھ کو کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ میرے پوتے پوتیاں ہیں، میں جانتا ہوں کہ ان کا اپنے خاندانوں سے کیا مطلب ہے۔” انہوں نے پوڈیم کو تھپتھپاتے ہوئے، دنیا کی بے عملی کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا "اس سے آگے کیا ہے جو کوئی بھی عام انسان برداشت کر سکتا ہے۔”انہوں نے آگے کہا "ہم اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ ہم اپنے لوگوں سے پیار کرتے ہیں۔ ہم انہیں اس سانحے اور ان وحشیانہ حملوں سے گزرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔”
انہوں نے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم زیتون کے درختوں سے زیادہ فلسطین میں جڑے ہوئے ہیں، رومیوں کی جڑیں فلسطین میں ہیں۔ ہم کبھی نہیں جائیں گے، ہم مرجھا نہیں جائیں گے۔ ہم اپنے وطن میں رہ رہے ہیں۔
سلامتی کونسل سے کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے منصور نے مطالبہ کیا: "کچھ کرو۔ فلسطینی عوام کے خلاف اس جرم کو جاری رکھنے سے روکو، اس نسل کشی کوروکو۔”