فلسطین سے تعلق رکھنے والے دو مختلف ذرائع نے جمعہ کے روز مغربی خبر رساں ادارے ‘ اے ایف پی ‘ کو اطلاع دی ہے کہ ایرانی نواز فلسطینی تنظیموں کے رہنما نئی شامی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے شام سے نکل جانے پر مجبور ہو گئے۔
اس سے پہلے یہ فلسطینی تنظیموں معقول حد تک شام میں آزادانہ اپنی نقل و حرکت جاری رکھے ہوئے تھا۔ جو اسے بشارالاسد کی حکومت نے دے رکھی تھی۔ تاہم اب احمد الشرع کی عبوری حکومت نے اس سے یہ حق واپس لے لیا ہے۔احمد الشرع ‘ھیتہ التحریر الشام’ کے سربراہ کے طور پر آٹھ د.سمبر 2024 کو بشار رجیم کا تختہ الٹ کر بر سر اقتدار آئے ہیں۔ ان کے آنے کے بعد شام کا مغربی دنیا کے ساتھ بھی تعلق بحال ہو گیا ہے، حتیٰ کہ احمد الشرع سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سعودی عرب کے دورہ کے موقع پر ملاقات کی ہے۔ایک فلسطینی لیڈر نے کہا بشار الاسد کے دور میں جو آزادی فلسطینیوں کو شام میں حاصل تھی وہ اب حاصل نہیں رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شام میں موجود عسکری گروپوں نے اپنے ہتھیار اپنے گروپوں کے ہیڈ کوارٹرز میں جمع کرا دیے ہیں۔ اگر کسی فرد کے پاس ذاتی طور پر کوئی ہتھیار ہے تو اس کا بھی اندراج کر لیا گیا ہے۔فلسطین سے متعلق ایک تیسرے گروپ نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ تمام ہتھیار حوالے کر دیے گئے ہیں۔ وہ فلسطینی جنہیں شام کو چھوڑ کر جانا پڑا ہے ان میں ‘پاپولر فرنٹ فار لبریشن’ کے بانی جنرل کمانڈر احمد جیبر کے بیٹے اور پاپولر فرنٹ کے سیکرٹری جنرل خالد عبدالماجد اور فتح الانتفاضہ کے سیکرٹری جنرل زیاد الصغیر بھی شامل ہیں۔وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ کی سعودی عرب میں احمد الشرع سے ملاقات ہوئی تو ٹرمپ نے اپنے مطالبات کی ایک فہرست انہیں تھما دی تھی۔ اسی فہرست میں ان ایران نواز فلسطینی گروپوں کا شام سے انخلا بھی شامل تھا۔