ڈھاکہ:بنگلہ دیش کے ایوان صدر بنگ بھون کے دربار ہال سے ملک کے پہلے صدراور بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن کی تصویر ہٹائے جانے کے بعد اب کئی دیگر سرکاری دفاتر سے بھی ان کی تصویر ہٹائے جانے کی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں۔سیاسی حلقوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بحث و تکرار جاری ہے۔عبوری حکومت کے مشیر محفوظ عالم اسلام نے سوشل میڈیا پر صدر کی سرکاری رہائش گاہ بنگا بھون کے دربار ہال میں لی گئی تصویر پوسٹ کرکے شیخ مجیب الرحمان کی تصویر ہٹانے کی اطلاع دی تھی۔
محفوظ عالم نے اپنی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ‘سال 1971 کے بعد دربار ہال سے فاشسٹ شیخ مجیب الرحمان کی تصویر ہٹا دی گئی ہے، یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے کہ 5 اگست کے بعد بنگ بھون سے ان کی تصویر نہیں ہٹائی جا سکی’۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔”
اس کے بعد سیکرٹریٹ کے کئی محکموں جیسے کامرس، میری ٹائم ٹرانسپورٹ وغیرہ سے شیخ مجیب الرحمن کی تصویر ہٹائے جانے کی خبریں میڈیا میں آنے لگیں۔تعلقات عامہ کے افسر فیصل حسن نے بی بی سی بنگلہ کو تصدیق کی کہ وزارت داخلہ کے مشیر کے دفتر میں شیخ مجیب الرحمان کی کوئی تصویر نہیں ہے۔ دریں اثنا، بی این پی کے سینئر جوائنٹ جنرل سکریٹری روح کبیر رضوی کے تبصرے پر ایک تازہ بحث شروع ہوگئی۔ تاہم، چند گھنٹوں کے اندر، رضوی نے بنگا بھون سے تصویر ہٹانے کے معاملے پر اپنے تبصرے پر معذرت کرتے ہوئے اسے واپس لے لیا تھا۔ انہوں نے پہلے کہا تھا کہ ’’بنگا بھون سے شیخ مجیب الرحمان کی تصویر نہیں ہٹانی چاہیے تھی‘‘۔ لیکن بعد میں انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ان کا خیال تھا کہ شیخ مجیب الرحمن کی تصویر اس جگہ سے ہٹا دی گئی ہے جہاں تمام صدور کی تصاویر آویزاں تھیں۔انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کے فاشسٹ دور حکومت میں شیخ مجیب الرحمان کی تصویر لگانے کا قانون لازمی قرار دیا گیا، فاشسٹ قانون کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا، دفاتر اور عدالتوں سمیت تمام جگہوں پر غلط حکمرانی کی نشانیاں لگانا مناسب نہیں۔ ناپسندیدہ تبصرے کے لیے معذرت خواہ ہوں
شیخ حسینہ کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد مختلف مقامات پر سرکاری دفاتر یا عدالتوں سے تصویریں ہٹائی جانے لگیں۔
بی بی سی بنگلہ نے مختلف سرکاری اور خود مختار اداروں میں زمینی سطح پر تحقیقات بھی کیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیخ مجیب الرحمان کی تصاویر اب وہاں آویزاں نہیں ہیں۔کئی مقامات سے شیخ مجیب اور حسینہ کی تصاویر 5 اگست کے بعد ہٹا دی گئیں۔۔