بھوپال:ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول کتنا پراگندہ ہوگیا ہے اس کے مظاہرسامنے آتے رہتے ہیں ـہیٹ اسپیچ تو عام ہیں حال ہی میں دہلی میں منعقد مبینہ دھرم سنسد میں ہتھیار جمع کرنے کی ترغیب دی گئی تھی اور اب مدھیہ پردیش سے ایسی ہی ایک خبرآئی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے خلاف منظم انداز میں مہم چلائی جارہی ہے
مدھیہ پردیش میں ایک میلے نے ایک بڑے تنازع کو جنم دیا ہے۔ اس میلے کا مقصد خود روزگار اور مقامی مصنوعات کو فروغ دینا تھا لیکن اب یہ تنازعات کا شکار ہے۔ مسلم تاجروں نے سنگین الزام لگایا ہے کہ انہیں دموہ ضلع کے تحصیل گراؤنڈ میں منعقد ‘سودیشی میلہ’ سے باہر پھینک دیا گیا اور منتظمین نے مبینہ طور پر کہا کہ "یہاں مسلمانوں کو اسٹال لگانے کی اجازت نہیں ہے۔” انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹال کی بکنگ اور شرکت کی فیس ادا کرنے کے بعد انہیں اتوار کو جانے کو کہا گیا۔ یہ میلہ 14 اکتوبر سے شروع ہوا جو 24 نومبر تک جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ سودیشی جاگرن منچ نے اس میلے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ آرایس ایس کی ذیلی تنظیم ہے. آگرہ کے ایک تاجر محمد راشد نے دعویٰ کیا، "انہوں نے میرا نام پوچھا اور میری دکان بند کردی۔ یہاں ہماری 10 دکانیں تھیں۔ منتظمین نے ہمیں بتایا کہ مسلمانوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارا تمام کرایہ اور سفری اخراجات ضائع ہو گئے ہیں۔” لکھنؤ کے ایک دکاندار شبیر نے کہا، "انہوں نے ہمیں دکانیں لگانے سے انکار کر دیا اور ہمیں چھوڑنے کو کہا۔” بھدوہی کے ایک تاجر وکیل احمد نے کہا، "وہ مسلمانوں کو بے دخل کر رہے ہیں۔ ہم میں سے تقریباً 15-20 لوگوں کو اپنی دکانیں بند کرنے کو کہا گیا۔”
••ڈی ایم نے دفاع کیا؟
دموہ کلکٹر (دموہ ڈی ایم) سدھیر کوچر نے معاملے کی جانچ کا یقین دلایا ہے۔ تاہم، انہوں نے اصرار کیا کہ سودیشی جاگرن منچ کو "شرکت یا عدم شرکت کا فیصلہ کرنے کا حق ہے” کیونکہ اس نے اس میلہ کا اہتمام کیا تھا۔ کوچر نے کہا، "میں نے اپنے افسران کو اس معاملے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ کوئی سرکاری پروگرام نہیں ہے بلکہ سودیشی جاگرن منچ کا پروگرام ہے اور اس میں کسی کی شرکت کا فیصلہ کرنا ان کا حق ہے۔ تاہم، ہم تمام معلومات اکٹھی کریں گے اور اگر ضروری ہوا تو ہم مناسب کارروائی کریں گے۔” میلے میں مختلف ریاستوں کے تاجروں نے شرکت کی۔( Ndtvکے ان پٹ کے ساتھ)