تحریر:ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
کرناٹک ہائی کورٹ نے اسکول میں اسکارف لگانے کو لے کر اپنا فیصلہ سنادیا ہے، فیصلہ آنے کے بعد کئی ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہیں، جن میں ایک سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے دوررس نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں، وہ سوال ہے کہ “کسی بھی مذہب کے بنیادی فرائض کو کیا عدالت ثابت کرے گی؟ اور کیا عدالت کسی بھی مذہب کی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے کسی بھی شخص کی رائے کو بطوراتھارٹی یا سند قبول یا پیش کرسکتی ہے؟ یا اس کا کوئی اصول اور معیار ہونا چاہیے۔
دستور ہند کا آرٹیکل 25 بہت ہی واضح طور پر پورے ملک میں مذہبی آزادی کا بنیادی حق تمام شہریوں کو فراہم کرتا ہے، مذہبی آزادی کا یہ دائرہ عقیدے کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی آزادی پر بھی محیط ہے، یعنی ہمارا دستور ہم تمام شہریوں کو یہ دستوری حق فراہم کرتا ہے کہ ہم تمام ہی شہری اپنے اپنے مذہبی عقائد اور فریضے کے ساتھ اپنے اعمال کو بھی مذہبی تعلیمات کی روشنی میں انجام دیں، اسکارف یا حجاب کا درجہ و اہمیت تمام ہی عملا پیروکار مسلمانوں کے لئے عقیدے کے ساتھ ضروری عمل کا بھی درجہ رکھتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے 1954 میں سوامینار کے مقدمے میں اپنے تاریخی فیصلے کے دوران عقیدے و عمل دونوں کی بنیادی اہمیت اور آرٹیکل 25 کے تحت دونوں کے احاطہ کو تفصیل کے ساتھ واضح کردیا تھا۔
مذہبی رسم و رواج کودستور و قوانین کی تدوین میں بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جب دستور بنایا جارہا تھا تو سکھ مذہب کی بنیادی تعلیمات کو دستور ہند کے آرٹیکل 25 میں واضح انداز میں شامل کیا گیا، آرٹیکل 25 کے تحت مذہبی آزادی کے ساتھ یہ بھی تحریر کیا گیا کہ سکھ مذہب کے ماننے والوں کو سر پر پگڑی باندھنے اور ساتھ میں کرپان لے کر چلنے کی آزادی ہوگی، آج ہمارے ملک کی پولیس اور فوج کے اداروں میں بھی سکھ مذہب کے ماننے والوں کو پگڑی باندھنے کی پوری اجازت اور آزادی ہوتی ہے۔
آرٹیکل25 نے اگرچہ مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی فراہم کی لیکن اس آزادی کو پبلک آرڈر کی شرط کے ساتھ منسلک و پابند کردیاگیا۔ بعد ایک دوسرا اہم سوال یہ پیدا ہوا کہ مذہب کی بنیادی رسوم جن کا عمل ضروری اور آرٹیکل 25 کے تحت دستیاب ہے کیسے ثابت ہوگا؟ سپریم کورٹ آف انڈیا نے 1954 میں شیرور مت فیصلے میں کہا کہ مذہب کی بنیادی رسوم کو اسی مذہب کے عقائد و تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ 1983 میں آنندا مرگا طبقے نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی کہ ٹانڈو ناچ کو ان کی مذہبی آزادی کے تحت تسلیم کیا جائے لیکن سپریم کورٹ نے اس اپیل کو مسترد کردیا۔ مسلم سماج کے لئے مذہبی تعلیمات کو اور ان تعلیمات کی روشنی میں حاصل رسومات کو دستوری حیثیت میں تسلیم کروانا یقینا ایک سنجیدہ اسکیم اور عملی اقدامات کا حقدار تھا۔ 1994 میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی پانچ ججوں پر منحصر بنچ نے اسماعیل فاروقی کے تاریخی فیصلے میں مسجد کو اسلام کی بنیادی ضرورت و حیثیت کو یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اسلامی تعلیمات میں نماز کہیں پر بھی پڑھی جاسکتی ہےاور مسجد میں ہی نماز ادا کرنا ضروری نہیں ہے اس سبب سے مسجد کی اہمیت بنیادی ضرورت کی نہیں ہے، اس مقدمے میں بابری مسجد و اس کے اطراف کی زمین کو لے کربحث ہورہی تھی۔ 2018 کا مشہور شابری مالا مندر مقدمہ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔
حجاب یا اسکارف کا مسئلہ بھی اسی ضمن کا ایک باب ہے۔ 2015 میں سی بی ایس ای نے میڈیکل کے امتحان میں بیٹھنے والوں کے لئے اپنے رہنما اصول میں اسکارف اور فل آستین کے کپڑوں پر پابندی لگادی، اس پابندی کے خلاف ندھا رحیم نے کیرلا ہائی کورٹ میں سی بی ایس ای کے اس آرڈر کے خلاف پٹیشن داخل کی، جس کے فیصلے میں کیرلا ہائی کورٹ کے جج ونود کمار چندرا نے کہا کہ “ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا ملک مختلف و متفرق مذاہب و تہذیبوں کا مرکز ہے، ہمیں کسی ایسے مخصوص ڈریس کوڈ پر ذبردستی نہیں کرنی چاہیے جس پر عمل کرانے کی صورت میں بہت سے بچے امتحان میں بیٹھنے سے محروم رہ جائیں۔ 2016 میں دوبارہ سی بی ایس ای نے میڈیکل اکزام کے لئے یہی شرط رکھی جس کو آمنہ بنت بشیر نے کیرلا ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس کے فیصلے میں کیرلا ہائی کورٹ نے تحریر کیا کہ مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر کسی بھی لڑکی یا عورت کا اپنے لئے ڈریس کوڈ منتخب کرنا اس کا دستوری حق ہے جو دستور کے آرٹیکل 25 کے تحت حاصل ہے۔ البتہ ہائی کورٹ نے ایک گھنٹہ پہلے پہنچ کر اسکارف و فل آستین کے کپڑوں کی چیکنگ میں مدد کرنے کی تاکید کی۔
کیرلا ہائی کورٹ نےپھر 2018 میں ایک دیگر فیصلے کے دوران جس میں ایک پرائیویٹ مشنری اسکول نے بچیوں کو سر پر اسکارف لگانے سے روک دیا تھا، کیرلا ہائی کورٹ نے اسکول کے حق میں کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی پرائیویٹ اور اقلیتی اسکول کو یہ دستوری حق حاصل ہے کہ اس کی آزادی کو یقینی بنایا جائے نیز اسکول کے داخلی نظم و نسق کے لئے اصول و ضوابط مرتب کرے۔ حالیہ مقدمہ میں کرناٹک ہائی کورٹ میں بحث کے دوران بھی اس فیصلے کا تذکرہ کرکے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن کیرلا ہائی کورٹ کے فیصلے میں اسکول ایک پرائیوٹ مشنری کا تھا جس کو مائینارٹی (اقلیتی) ادارے کی حیثیت حاصل تھی جب کہ اڈوپی کا اسکول سرکاری اسکول ہے جو کہ تمام شہریوں حاصل ٹیکس کے ذریعے تمام شہریوں کی بنا کسی تفریق کے تعلیم فراہم کرنے کی غرض قائم کیا گیا ہے۔ وہیں کرناٹک ہائی کورٹ میں اسکارف کی بحث کے دوران ممبئی ہائی کورٹ کے ایک فیصلے پر انحصار کیا گیا جس میں 2003 میں ممبئی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ قرآن کی روشنی میں لڑکیوں کا لڑکیوں کے سامنے حجاب پہننا ضروری نہیں ہے جب کہ اڈوپی و دیگر متنازعہ اسکول و کالج میں لڑکیوں کے علاوہ لڑکے بھی زیرتعلیم ہیں، بہر حال کرناٹک ہائی کورٹ نے فریقین کی دلیل اور بحث سننے کے بعد اپنا فیصلہ سنادیا ہے، امید تھی کہ آنے والا فیصلہ دستوری حقوق کو مزید تحفظ فراہم کرتے ہوئے ایک تاریخ رقم کرے گالیکن جس طرح سے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ “چانکہ سر ڈھکنے کو لے کر اسلام میں کوئی سزا متعین نہیں ہے اس بنیاد پر حجاب کو بنیادی فریضہ یا بنیادی حکم کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ہے”، بہت ہی تعجب خیز ہے، کیونکہ نماز، روزہ، حج اور زکوتہ جیسے فرائض کے لئے بھی دنیا میں کوئی سزا متعین نہیں ہے۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسلام میں سر ڈھکنے کی کوئی روایت ایسی موجود نہیں ہے، نام نہاد فیمنسٹ کارکنان بھی میدان میں اترآئیں “کہ تعلیم کو فوقیت دو” نیز پردہ سے باہر نکلو، مذہب اسلام میں حجاب نیز اسکارف کی بنیادی اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد احادیث و قرآن کی آیتیں موجود ہیں جو مذہب اسلام کے پیروکاروں کو حجاب اور پردہ کرنے کے سخت احکامات دیتے ہیں، اختلاف رائے چہرے کے پردے کو لے کر ہوسکتا ہے لیکن سر کو ڈھکنے میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے، سپریم کورٹ بھی نیشنل لیگل سروس اتھارٹی بنام یونین آف انڈیا کے فیصلے میں نیز پھر کے ایس پٹاسوامی بنام یونین آف انڈیا کے فیصلے میں ہر شہری کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند اور مرضی سے لباس زیب تن کرنے کی پوری آزادی و حق رکھتا ہے۔
ایک جمہوری ملک میں جہاں تمام ہی مذاہب اور تہذیبوں کو اپنے مخصوص شناخت اور تشخص کا احترام نیز اس پر عمل کرنے کے دستوری حقوق حاصل ہوں نیز اقلیتی طبقات کے متعلقہ حقوق کے تحفظ کے لئے مخصوص وزارت و کمیشن قائم ہوں لیکن پھر بھی کسی ریاست میں اس طرح کی کوئی پابندی نافذ نا ہونے کے باوجود کسی سرکاری اسکول یا کالج میں مسلم لڑکیوں کے ساتھ تفریق کا یہ امتیازی سلوک برتا جانا یقینا تشویشناک ہے۔ جب کہ دستور ہند کے آرٹیکل 29 کے تحت کسی بھی شہری کو کسی بھی ایسے تعلیمی ادارے میں مذہب کی بنیاد پر داخل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا ہے جو تعلیمی ادارہ حکومت کے ذریعے زیر انتظام ہو، اڈوپی کا کالج ایک سرکاری کالج ہے، لیکن ابھی تک صوبائی حکومت یا مرکزی حکومت نیز اقلیتی و حقوق انسانی سے متعلق وزارت و کمیشن خاموش ہیں جن کی کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی ہے۔
اسکارف اور حجاب کا مسئلہ ایک ایسے مذہب کے عملی پیروکاروں کے لئے شناخت اور مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے جو اقلیت میں ہے، اقلیت کو ہر سماج میں خطرات اور اندیشے لاحق ہوتے ہیں، حکومت و عدلیہ کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کے ہر فرد کو یہ یقین دلائے کہ وہ پوری طرح محفوظ ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)