مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی
( نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ )
دینی علوم کے حاملین اورمذہبی شناخت رکھنے والے افرادواشخاص کیلئے عالم، مولانا، مولوی اورمُلاکے الفاظ عام طور پراستعمال کیے جاتے ہیں،لیکن ان کے مفہوم،مدلول اور اصطلاحی معنی میں بڑا فرق ہے،یہ الفاظ لغوی اوراصطلاحی طور پرایک دوسرے کے مترادف نہیں ہیں،بلکہ ہرایک کامعنی ومفہوم الگ الگ ہے۔
عالم کے معنی لغت میں جاننے والے کے آتے ہیں،اس کے لغوی معنی میں ایساعموم ہے کہ کسی بھی طرح کی باتیں جاننے والوں کوعالم کہاجاسکتاہے،لیکن ایسانہیں ہے، عام بول چال میں عالم کے عمومی معنی متروک ہوچکے ہیں ہرجاننے والے کوکوئی عالم نہیں کہتا،بلکہ اس کااطلاق کچھ خاص قسم کی صلاحیت رکھنے والے پرہی ہوتاہے،گویاعرف عام نے اس لفظ کولغوی معنی سے نکال کرایک الگ معنی میں استعمال کرناشروع کیا،جس کی وجہ سے عالم کی الگ اصطلاح وجودمیں آئی، منطق کی اصطلاح میں اسے منقول اصطلاحی کہاجاتاہے۔دارالعلوم دیوبندنے اپنے ایک فتویٰ میں لکھاہے کہ:’’علوم دینیہ کے مخصوص نصاب کوثقہ اساتذہ سے پڑھ کرفارغ ہونے والے شخص کوعرفاعالم کہا جاتا ہے‘‘۔ (جواب نمبر16857)
اس فتویٰ میں دوباتیں اہم ہیں،ایک مخصوص نصاب اوردوسرے ثقہ اساتذہ سے اس مخصوص نصاب کی تعلیم کے بعد فراغت،دار العلوم دیوبندکے اس فتویٰ کا حاصل یہی ہے،اس فتویٰ کی رو سے ان کے نزدیک مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں،لیکن مخصوص نصاب کاثقہ اساتذہ سے پڑھ کرتکمیل ضروری ہے۔یعنی درمیان میں کچھ پڑھ کرتعلیم منقطع کرنے والے کوبھی عالم نہیں کہیں گے۔
دارالعلوم دیوبندکے دوسرے فتویٰ میں لکھا ہے کہ دورحاضرکے عرف میں عالم وہ شخص ہے جوقرآن وحدیث کوباقاعدہ پڑھے ہوئے ہواورقرآن وحدیث کو،اس کے احکام کوبراہ راست سمجھتاہو،جماعت میں نکلنے والااگرکچھ باتیں دین کی سیکھ لے تواسے عالم نہیں کہاجائے گا،اسی طرح جس نے محض کتابوں کامطالعہ کرکے کچھ باتیں سیکھ لیں وہ بھی عالم نہیں کہاجائے گا،جب تک کسی مستندعالم کے پاس یا کسی مستندمدرسہ میں رہ کرتمام علوم آلیہ کوسیکھ کرعلوم قرآن اوراس کی تفسیرکونہ پڑھے اوراسی طرح علم حدیث کونہ سیکھے تووہ اہل علم کے یہاں اصطلاحی عالم شمارنہیں کیاجائے گا،عالم کے لیے باقاعدہ تمام علوم کوسات آٹھ سال تک پڑھناضروری ہے۔(فتویٰ146973، 28دسمبر 2016)
ارشادالفحول میں علامہ محمدبن علی شوکانی نے عالم ہونے کیلئے پانچ شرطوں کا ذکر کیا ہے، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ عالم وہ شخص ہوگا،جونصوص قرآن وسنت صحاح ستہ اورحدیث کی دوسری کتابوں کاعالم ہو،تخریج پرقادرہو،صحیح اور ضعیف احادیث،لسان عرب،لغات کے معنی اسکی ترکیب کوجانتاہو،مسائل اجماع کا عارف،ناسخ ومنسوخ کاعالم اوراصول فقہ کا علم رکھتاہو، کیوں کہ اصول فقہ احکام شرعیہ کے استنباط کی بنیادہے۔ (جلد 2صفحہ297-303)
عالم کے اسی اصطلاح اورعرف کی وجہ سے مولاناابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں ان کی علمی عبقریت وعظمت کے باوجود ترجمان جلد14شمارہ3صفحہ227کے حوالہ سے فتاویٰ محمودیہ میں ان کااقرار نقل کیاہے کہ’’مجھے گروہ علماء میں شامل ہونے کاشرف حاصل نہیں ہے،میں ایک بیچ کی راہ کاآدمی ہوں جس نے جدیداورقدیم دونوں طریقہ ہائے تعلیم سے کچھ کچھ حصہ پایاہے،دونوں کوچوں کوخوب چل پھرکردیکھاہے۔‘‘(فتاویٰ محمودیہ1 صفحہ367)
اسی عرف کی وجہ سے یونیورسٹی کے شعبہ مطالعات اسلامی(اسلامک اسٹڈیز) سے فارغ ہونے والے کوبھی عالم نہیں کہا جاتا،ان کیلئے عرف میں اسلامک اسکالرکا لفظ مستعمل ہے،عام طورپرنہ توان کوعالم سمجھاجاتاہے اورنہ ہی انہیں مقتدیٰ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے،الا یہ کہ وہاں جانے کے پہلے انہوں نے کسی دینی تعلیمی ادارے سے متعینہ نصاب کی تکمیل کی ہو۔دار العلوم دیوبندہی کے ایک فتویٰ255-278/N=4/1441میں لکھاہے کہ ’’جانتے ہوئے کسی غیرعالم کوعالم،غیرحافظ کوحافظ یاغیرمفتی کومفتی کہنادرست نہیں ہے، اوراگرکوئی شخص لاعلمی میں یا دوسروں کی دیکھادیکھی کہتاہے تواسے حقیقت بتادی جائے۔‘‘ایک اورفتویٰ دار العلوم دیوبندکاہے جس میں لکھاہے کہ عالمیت کاکورس پڑھے بغیراپنے آپ کو عالم کہنادرست نہیں۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤکے فتاویٰ ندوۃ العلماء میں مذکورہے کہ ’’جوشخص با قاعدہ کسی دینی درسگاہ یاکسی عالم دین سے علم حاصل نہیں کیاہو،انہیں عالم کے لقب سے پکارنادرست نہیں ہے اورنہ ہی اپنے کوعالم کہلانادرست ہے۔‘‘
البتہ جوواقعتاعالم ہیں ان کے بارے میں فرمایاگیاکہ’’بے شک زمین پرعلماء کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے، توجب ستارے ماندپڑجائیں توقریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہوجائیں۔‘‘ (مسند احمد 313-4،مسندانس بن مالک حدیث 12600)
ایک اورطبقہ ہے جس نے کسی مدرسہ میں پڑھے بغیربورڈسے صرف عالم فاضل کی سندحاصل کی ہے ،عرف میں وہ بھی عالم نہیں سمجھاجاتاکیوں کہ ان کی نصابی تعلیم نہیں ہوتی؛بلکہ وہ ذریعہ معاش کے حصول کیلئے امتحان دے کرسندحاصل کر لیتے ہیں،اس لیے عرف عام انہیں عالم ماننے کوتیارنہیں،یہ بات آج کے پس منظرمیں کہی جارہی ہے،ماضی میں بورڈ کے مدارس کے فارغین کی حیثیت بھی عالم کی ہوتی تھی،بھلاحضرت مولاناعبد الرحمنؒ امیرشریعت خامس کے عالم باعمل ہونے سے کسے انکارہوسکتاہے۔
عالم کوان دنوں عالم صاحب کم،مولاناکے لفظ سے زیادہ یادکیاجاتاہے،اس کے بھی حقیقی معنی متروک ہو گیے ہیں،البتہ عالم کے معنی میں تخصیص تھی،یہاں تعمیم ہے،مولاناصرف عالم پرہی نہیں عرف عام میں غیرعالم پر بھی بولا جاتا ہے ، مذہبی معلومات کے ساتھ وضع قطع اسلامی انداز کی ہو، لانبا کرتا، ٹخنہ سے اوپرپاجامہ اور چہرے پرڈاڑھی کے ساتھ وعظ وخطابت دعوت وتبلیغ اوراسلامی افکارواقدارکی ترویج واشاعت سے جوجڑگیااوربادی النظر میں خلاف شرع کام کرنے والانہ ہوتواسے مولاناصاحب کہتے ہیں،یہ بھی ایک عرف ہے،مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی، مولاناشفیع داؤدی وغیرہ کے نام کے ساتھ اسی عمومی معنی کے اعتبار سے مولانا لگاتے ہیں،حالاں کہ ان حضرات کی تعلیم کسی درسگاہ اسلامی میں نہیں ہوئی تھی، مولیٰ ایسالفظ ہے جوقرآن واحادیث اور کلام عرب میں باربارآیاہے،اس کے بہت سارے معنی ہیں،’’نا‘‘ضمیرہے جوبطور مضاف الیہ اس کے ساتھ جڑگیاہے،اس کے لیے کسی درس نظامی کافارغ ہوناضروری نہیں ہے۔تبلیغی جماعت میں کثرت سے ایسے افرادمل جائیں گے جوکہیں کے تعلیم یافتہ نہیں ہیں،لیکن ان کی وضع قطع دعوت وتبلیغ سے جڑے ہونے کی وجہ سے ناواقف لوگ انہیں مولاناکہاکرتے ہیں،اس سے معلوم ہواکہ تمام لوگ جومولاناکہے جا رہے ہیں ان کاعالم ہوناضروری نہیں ہے، لیکن جوعالم اصطلاحی ہیں وہ مولاناکہے جاتے ہیں،منطق کی اصطلاح میں ان دونوں میں عموم خصوص کی نسبت ہے، یعنی ہرعالم،مولاناکہاجاتاہے،لیکن ہر مولاناکہاجانے والاعالم نہیں ہوتا،البتہ بعض صورتوں میں فردواحدعالم اورمولانا دونوں ہوسکتاہے ۔
اسی قبیل کاایک لفظ مولوی ہے،جس کے معنی مالک کے آتے ہیں،مالک حقیقی تواللہ رب العزت ہے،اس لیے اس کے مجازی معنی اللہ والے کیلئے جاتے ہیں،مولاناجلال الدین رومی نے صوفیوں کی ایک جماعت بنائی تھی،جس کومولوی کہاکرتے تھے،غیاث اللغات میں اس لفظ کی تحلیل وتشریح کرتے ہوئے لکھاہے کہ’’مولوی بفتح المیم ولام منسوب بمولابمعنی خداوندکے ہیں، بعدمیں یائی نسبت کی وجہ سے جوکہ چوتھاحرف تھاواؤپربدل گیا کیوں کہ الف مقصورۃ جب تین حرفی کلمہ کے آخرمیں ہو تو نسبت کے وقت واؤپربدل جاتاہے‘‘ مولاناروم نے یہ لفظ ایک جگہ اپنے لیے بھی استعمال کیاہے۔
مولوی ہرگزنشدمولائے روم
تاغلام شیخ تبریزے نہ شد
ایک زمانہ تک یہ لفظ وکلاء کیلئے بھی استعمال ہوتاتھا،اب عام طورپرکم مذہبی معلومات رکھنے والوں کیلئے استعمال ہوتا ہے،گاؤں کے امام اورمؤذن کیلئے بھی یہ لفظ مستعمل ہے،عرف کے اعتبارسے اسے مولانا سے نیچے کا لفظ سمجھا جاتا ہے ، بڑے علماء اور اکابر اپنے شاگردوں کو خواہ وہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو مولوی صاحب ہی کہہ کرپکارتے ہیں، اپنے ماتحت عالموں کے لیے بھی اسے بُرا نہیں سمجھا جاتا ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے نزدیک مولوی اس کو کہتے ہیں جو مولانا والا ہو یعنی علم دین بھی رکھتا ہو اور متقی بھی ہو، خوف خدا وغیرہ اخلاق حمیدہ رکھتا ہو (التبلیغ 133)ہمارے حضرت امیر شریعت سادس دفتر کے تمام کارکنوں کو مولوی صاحب ہی کہا کرتے تھے ، البتہ حضرت امیر شریعت سابع ’’مولانا‘‘ کے لفظ سے یاد کرتے تھے ، بلکہ بغیر مولانا لگائے کسی کو پکارا جائے تو وہ خفا ہوا کرتے تھے ۔
الفاظ کی اسی درجہ بندی میں ایک لفظ مُلّا بھی ہے ، ہمارے یہاں بہار میں 1978 سے پہلے تک فوقانیہ پاس کو مُلّا کہہ کر پکارتے تھے ،یہ لفظ پہلے معزز لوگوں کے لیے استعمال ہوتا تھا، لیکن اب یہ عام طور پر کسی کو حقارت کے ساتھپیش کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ، ملا اور محتسب کی جنگ بھی ہر دور میں چلتی رہی ہے ، ان دنوں یہ لفظ غیر مسلموں کی جانب سے ڈاڑھی ٹوپی والوں کے لیے اور کہیں کہیں عام مسلمانوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کے یہاں بھی یہ لفظ آیاہے،لکھتے ہیں :
افغانیوں کے غیرت دیں کاہے یہ علاج
مُلّاکوان کے کوہ ودمن سے نکال دو
بعض اہل علم کی رائے ہے کہ’’علوم الٰہیہ میں جس کی بھی علمی سند حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہواسے مُلا،مولوی،مولانا،عالم کہہ سکتے ہیں اور جن کی علمی سندحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچتی ہو،وہ نہ تو ملا ہے،نہ ہی مولوی،نہ ہی مولانااورنہ ہی عالم ۔‘‘
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)