سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے رہنما بنجمن نیتن یاہو کو بتائیں کہ "بہت ہو چکا ہے”۔ انہوں نے اس موقع پر غزہ جنگ جاری رکھنے کو "جرم” قرار دیا اور اصرار کیا کہ دو ریاستی حل ہی تنازع ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔
ایہود اولمرٹ جو 2006-2009 کے درمیان اسرائیلی وزیرِ اعظم تھے، نے پیرس میں ایک انٹرویو میں کہا کہ تنہا امریکہ کا اسرائیلی حکومت پر جو اثر و رسوخ ہے، وہ "دیگر تمام طاقتوں کے مشترکہ اثر و رسوخ سے زیادہ” ہے اور یہ کہ ٹرمپ "فرق پیدا” کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو ایک رہنما کے طور پر سات اکتوبر 2023 کا حملہ روکنے میں ناکام رہے۔
انہوں نے کہا، اگرچہ بین الاقوامی برادری نے سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کے حقِ دفاع کو قبول کیا لیکن یہ صورتِ حال اس وقت بدل گئی جب نیتن یاہو نے مارچ میں جنگ کے خاتمے کے امکانات کو مسترد کر دیا اور اس کے بجائے فوجی کارروائیوں میں اضافہ کیا۔اولمرٹ نے الزام لگایا، نیتن یاہو کے "اپنے ذاتی مفادات ہیں جن کو قومی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے۔”
تجزیہ کاروں کے مطابق نیتن یاہو کو خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے جنگ روک دی تو ان کے اتحاد کے سخت گیر ارکان واک آؤٹ کر دیں گے جو حکومت گرانے اور انتخابات کروانے کا سبب ہو گا جن میں وہ ہار سکتے ہیں۔ولمرٹ نے کہا، "اگر ایک جنگ قیدیوں کو نہیں بچا سکتی، حقیقت میں حماس کے خاتمے کے لیے مزید کچھ نہیں کر سکتی اور اگر اس کے نتیجے میں فوجی ہلاک ہو رہے ہیں، قیدی ہلاک ہو سکتے ہیں اور بے گناہ فلسطینی ہلاک ہو رہے ہیں تو میرے خیال میں یہ ایک جرم ہے۔ اور یہ ایسی چیز ہے جس کی مذمت ہونی چاہئے اور اسے قبول نہیں کیا جانا چاہئے۔”
اولمرٹ نے وزیرِ اعظم کا عرفی نام استعمال کرتے ہوئے کہا، "ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ نیتن یاہو کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں طلب کریں اور کیمروں کے سامنے کہیں : "بی بی: بہت ہو گیا۔”اولمرٹ نے کہا، "بہت ہو گیا۔ مجھے امید ہے کہ وہ (ٹرمپ) ایسا کریں گے۔ ایسی کوئی بات نہیں جو ٹرمپ کے ساتھ نہ ہو سکے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسا ہو گا یا نہیں۔ ہمیں امید کرنی ہے اور ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔”
ہے۔”