تحریر:پروفیسر رام پنیانی
حال میں یو این او (اقوام متحدہ) کی جنرل سبھا نے ایک قرارداد پاس کر یہ اعلان کیا کہ 15 مارچ پوری دنیا میں ’کامبیٹ اسلاموفوبیا‘ (اسلام کو ایک ڈراؤنے مذہب کی شکل میں پیش کرنے کی مخالفت) کے خصوصی دِن کے طور پر منایا جائے گا۔ حالانکہ اس قرارداد کو اتفاق رائے سے پاس کیا گیا، لیکن ہندوستان نے کہا کہ اس کا ماننا ہے کہ کسی ایک مذہب کے تئیں خوف کے جذبہ کو بین الاقوامی دِن کی شکل میں منائے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسلاموفوبیا لفظ کے وسیع استعمال کی شروعات 11/9، 2001 کے حملے سے ہوئی۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد امریکی میڈیا نے ’اسلامی دہشت گردی‘ لفظ کو متعارف کیا۔ دیگر ممالک کے میڈیا کے ایک بڑے حصے نے اس لفظ کا استعمال کرنا شروع کر دیا اور دھیرے دھیرے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بننے لگا۔ ہندوستان میں اسلاموفوبیا کا اثر دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
ہندوستان میں فرقہ وارانہ سیاست کے سبب اسلاموفوبیا بہت تیزی سے بڑھا۔ مسلمانوں اور اسلام کے تئیں نفرت کے جذبہ کی جڑیں انگریزوں کی ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی میں ہیں۔ انگریزوں نے فرقہ واریت پر مبنی نظریہ سے تاریخ کو نئے سرے سے لکھا۔ اس مین راجاؤں کو ملکیت اور حکمرانی کی چاہت رکھنے والے جنگجوؤں کی جگہ اپنے اپنے مذاہب کے علمبرداروں کی شکل میں پیش کیا گیا۔ مسلم علیحدگی پسندوں نے ’ہندوؤں سے نفرت کرو‘ مہم شروع کی، تو ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس نے مسلمانوں کو دشمن کی شکل میں دکھانا شروع کر دیا۔ مجموعی طور پر عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے عروج کے کافی پہلے سے یہ ہندوستان میں موجود تھا۔
بابری مسجد کو مندہم کیا گیا۔ اس کے بعد گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، جس کے نتیجے میں ان کے اپنے الگ محلوں میں سمٹنے کی روش کو فروغ ملا۔ شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو پلٹنے سے مسلمانوں میں مذہبی اصلاح کے عمل کو بڑا جھٹکا لگا۔ اکثریتوں کے تشدد کے سبب مسلمانوں کے ایک گھیرے میں سمٹتے جانے سے ان کا مولاناؤں کے چنگل سے نکلنا مزید مشکل ہو گیا۔ مسلم طبقہ کے ضدی افراد کو اکثریتی طبقہ سے جڑی تنظیمیں اور پارٹیاں لگاتار اسلحہ دستیاب کروا رہی ہیں۔
ہندوستان نے اقوام متحدہ کی قرارداد پر اپنا اعتراض درج کرایا۔ یہ اعتراض ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کی حالت سے قطعی میل نہیں کھاتا۔ یہ بھی درست ہے کہ مسلم طبقہ میں کچھ شدت پسند عناصر ہیں جو اسلام کے نام پر اکثریتی کٹرپسندانہ سیاست کی آگ میں گھی ڈالتے رہتے ہیں۔ کرناٹک میں حجاب کے ایشو پر زبردست تنازعہ ہوا۔ تقریباً سبھی حقوق انسانی تنظیموں نے خواتین کے حجاب پہننے یا نہ پہننے کے حق کی وکالت کی۔ لیکن کیا کسی نے یہ سوچا کہ اتنے برسوں بعد یہ ایشو اچانک کیوں ابھرا۔ ہندوستان میں مسلم طالبات کئی دہائیوں سے حجاب پہنتی آ رہی ہیں۔ لیکن اب تک ہوتا یہ تھا کہ وہ اپنے اسکول یا کالج پہنچنے کے بعد حجاب اتار دیتی تھیں اور پھر اپنی کلاس میں جاتی تھیں۔ کرناٹک میں تنازعہ اس لیے شروع ہوا کیونکہ کچھ لڑکیوں نے کلاس کے اندر بھی حجاب پہننے کی ضد پکڑ لی۔ ظاہر ہے کہ اس سے ہندو فرقہ پرست عناصر کو بہانہ مل گیا اور ان کے بہکاوے میں آ کر ہندو طلبا بھگوا شال اوڑھ کر تعلیمی اداروں میں پہنچنے لگے۔ اس کے بعد معاملہ عدالت میں چلا گیا۔
فرقہ واریت کا رتھ لگاتار چل رہا ہے۔ پورے ملک میں اور خصوصاً کرناٹک میں نفرت بھری تقریر ہو رہی ہے، مسلم کاروباریوں کے بائیکاٹ کی اپیلیں ہو رہی ہیں، عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کی مخالفت ہو رہی ہے اور مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ نفرت پھیلانے والی باتیں کہنا بہت عام ہو گیا ہے۔ ایک عدالت نے تو یہاں تک کہا کہ اگر ایسی بات ’مسکراتے ہوئے‘ کہی جائیں تو وہ جرم کے درجہ میں نہیں آتی۔ برسراقتدار پارٹی مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’گولی مارو‘ کا نعرہ دینے والے انوراگ ٹھاکر کو پروموشن دے کر کابینہ وزیر بنایا گیا۔ ڈاسنا دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند کی زبان سے زہریلی بولی لگاتار نکل رہی ہے۔ ہریدوار میں دھرم سنسد نے مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا اور وزیر اعظم خاموشی اختیار کیے رہے۔
حال ہی میں دہلی میں منعقد ایک مہاپنچایت میں مسلم مخالف نعرے لگائے گئے اور یتی نرسنہانند نے کہا کہ ہندوؤں کو اسلحہ اٹھانا چاہیے اور یہ بھی کہ اگر کوئی مسلمان وزیر اعظم بن گیا تو اس سے مذہب تبدیلی کا خطرہ بڑھے گا۔ اسی مہاپنچایت میں ’سدرشن ٹی وی‘ کے چیف سریش چوہانکے نے بھی اقلیتی طبقہ کے خلاف زہر اگلا۔
ہندوتوا تنظیموں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہندو مندروں کے آس پاس اور ہندو مذہبی میلوں میں مسلم کاروباریوں کو اپنی دکانیں وغیرہ نہیں لگانے دی جانی چاہیے۔ یہ اچھی بات ہے کہ بی جے پی کے ہی دو لیڈروں نے اس کی مخالفت کی ہے اور بایوٹیکنالوجی کمپنی بایوکان کی بانی کرن مجومدار شا نے ٹوئٹر پر کرناٹک حکومت کی ’فرقہ وارانہ بائیکاٹ‘ کی پالیسی کی تنقید کی ہے۔
کرناٹک میں فرقہ وارانہ محاذ پر بہت کچھ ہو رہا ہے۔ ریاست کے نئے وزیر اعلیٰ سماج کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنے کے لیے کمر کس چکے ہیں۔ کرناٹک اسمبلی نے ’دھرم سواتنتر بل‘ (مذہبی آزادی بل) پاس کیا ہے جس کا اصل مقصد مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنا ہے۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بھی کرناٹک کے نقش قدم پر چلنے کو بے صبر ہیں۔
مسلم طبقہ کی معاشی ریڑھ توڑنے کے لیے کئی طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ الگ الگ بہانوں سے مسلم کاروباریوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ کرناٹک کے شموگا میں بجرنگ دل کارکنان نے ایک گوشت دکاندار پر ’حلال گوشت ایشو‘ معاملے میں حملہ کر دیا۔ ’حلال‘ لفظ کا عربی زبان میں مطلب ہوتا ہے ’جائز یا مناسب‘۔ یہ اسلام کے مذہبی اصولوں کے حساب سے ذبح کیے گئے جانور کا گوشت ہوتا ہے۔ لیکن پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی یہ گوشت خریدتے ہیں۔ اس معاملے میں گرفتار کیے گئے بجرنگ دل کے پانچ کارکنان کو آسانی سے ضمانت مل گئی۔ لیکن امن کی بات کرنے والے فادر اسٹین سوامی کو ضمانت نہیں ملی اور نہ ہی عمر خالد کو۔ اتر پردیش میں نوراتری کے دوران گوشت پر پابندی لگانے کا مطالبہ اٹھا تھا۔ خوش قسمتی سے یہ زیادہ زور نہیں پکڑ سکا۔ کچھ وقت پہلے ممبئی میں جین تہوار ’پریوشن‘ پر بھی اسی طرح کی پابندی لگانے کی بات کہ گئی تھی۔
ویلنیس کمپنی ہمالیہ پر اس لیے نشانہ سادھا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے سائن بورڈوں پر حلال سرٹیفکیٹ ظاہر کرتا ہے۔ سا کمپنی کا مالک ایک مسلمان ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ جو شخص ہمالیہ کا پروڈکٹ خریدے گا وہ ’معاشی جہاد‘ کو فروغ دے گا۔ کورونا جہاد، زمین جہاد، یو پی ایس سی جہاد وغیرہ کے بعد جہادوں کی لگاتار لمبی ہوتی جا رہی فہرست میں یہ سب سے تازہ انٹری ہے۔ کمپنی نے یہ واضح کیا ہے کہ اس کی کسی بھی مصنوعات میں گوشت نہیں ہوتا۔ حلال سرٹیفکیشن دوائیوں کا ایکسپورٹ کرنے کے لیے ضروری ہے اور ریلائنس، ٹاٹا، ڈابر، امول، ہندوستان یونیلیور وغیرہ نے بھی یہ سرٹیفکیٹ لیا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر پر اذان دی جاتی رہی ہے۔ اب مہاراشٹر میں راج ٹھاکرے نے اسے ایشو بنا لیا ہے۔ تریپورہ میں ایک بی جے پی لیڈر نے سرکاری گرانٹ سے چل رہے مدرسوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ان کے مطابق مدرسوں سے دہشت گرد پڑھ کر نکلتے ہیں۔ گجرات حکومت درجہ 6 سے 12 تک کے طلبا کے لیے ’بھگوت گیتا‘ کو نصاب میں شامل کر رہی ہے۔
جمعیۃ علمائے ہند کے ذریعہ جمع اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2021 سے لے کر دسمبر 2021 تک نفرت پھیلانے والی 59 تقریریں دی گئیں، لنچنگ سمیت تشدد کی 38 وارداتیں ہوئیں۔ 21 مذہبی مقامات پر حملے ہوئے، 2 اشخاص پولیس حراست میں مارے گئے اور پولیس کے ذریعہ مظالم اور سماجی تفریق کے بالترتیب 9 اور 6 معاملے سامنے آئے۔ یہ سب اقلیتوں کے خلاف نفرت کے ماحول کا نتیجہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت ہند کو اقوام متحدہ کے 15 مارچ کو یوم کامبیٹ اسلاموفوبیا کی شکل میں منائے جانے پر اعتراض کیوں تھا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)