یوکرین پر روس کے باقاعدہ حملے کو تین برس ہو چکے ہیں اور اس دوران امریکہ اور بین الاقوامی اتحادیوں نے روس کے ساتھ ایک ایسے اچھوت جیسا برتاؤ کیا جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا مرتکب رہا۔
تاہم اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس صورتحال کو یکسر پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ وہ ماسکو کے ساتھ تعلقات بحال کر رہے ہیں اور روس کو جارح قرار دینے یا یوکرین کو اس جنگ میں مظلوم تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔یہ معاملہ عوامی سطح پر اس وقت اور نمایاں ہوا جب جمعے کے روز صدر ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ملاقات میں تناؤ اور کشیدگی نے جنم لیا اور اس دوران یوکرین کی جنگ اور اسے ختم کرنے کے طریقۂ کار پر کھل کر بحث کی گئی۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صورتحال 1990 کی دہائی میں جنم لینے والے ’لبرل عالمی نظام‘ (لبرل ورلڈ آرڈر) کے زوال پذیر ہونے کا اشارہ ہے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے؟
•••لبرل بالادستی کا دور
لبرل عالمی نظام دراصل عالمی معاہدوں، اصولوں اور ضوابط پر مبنی ایک بین الاقوامی نظام کی وضاحت کرتا ہے جس کے پیچھے بنیادی نظریہ یہ ہے کہ مغربی لبرل جمہوریت حکومت کا سب سے بہتر ماڈل ہے۔اس نظام میں بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ جیسے ادارے، اس کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل شامل ہیں۔یہ نظام ایک مخصوص سوچ اور روایات کی بھی نمائندگی کرتا ہے مثلا آزادانہ تجارت، جس کی حمایت عالمی تجارتی تنظیم، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ،اور عالمی بینک جیسے ادارے کرتے ہیں۔کئی ممالک کے خیال میں یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ کر کے روس نے نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی بلکہ عالمی نظام کی بھی دھجیاں بکھیر دی۔ 2014 کے بعد سے روسی صدر پوتن نے خود بھی اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے۔
مغربی ممالک کے تناظر میں یوکرین کے خلاف روسی جارحیت سرد جنگ کے بعد قواعد پر مبنی نظام کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہےروس نے متعدد بار 1999 میں نیٹو افواج کی یوگوسلاویہ پر بمباری، 2003 میں امریکی قیادت میں عراق پر حملے اور 2008 میں کوسوو کی آزادی کو تسلیم کیے جانے کی مثالیں دی ہیں جنھیں مغربی طاقتوں کے ایسے اقدامات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر کیے گئے اور جو روس کے مطابق اقوام متحدہ کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔روس نے متعدد بار 1999 میں نیٹو افواج کی یوگوسلاویہ پر بمباری، 2003 میں امریکی قیادت میں عراق پر حملے اور 2008 میں کوسوو کی آزادی کو تسلیم کیے جانے کی مثالیں دی ہیں جنھیں مغربی طاقتوں کے ایسے اقدامات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر کیے گئے اور جو روس کے مطابق اقوام متحدہ کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔
ممالک جو موجودہ عالمی قوانین کو چیلنج کرتے ہیں انھیں روایتی طور پر ’ترمیم پسند طاقتیں یا ریاستیں‘ کہا جاتا ہے۔ امریکی قانون ساز اور تجزیہ کار بہت برسوں سے چین اور روس کے لیے یہ اصطلاح استعمال کرتے رہے ہیں اور یہ دلیل دیتے رہے کہ دونوں ممالک عالمی سطح پر امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ٹرمپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ ’میری انتظامیہ ماضی کی ناکام خارجہ پالیسی، گذشتہ انتظامیہ کی ناکامیوں اور ماضی سے فیصلہ کن دوری اختیار کر رہی ہے۔‘امریکی مفادات کا حوالہ دے کر ٹرمپ انتظامیہ نے روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے اقدام کو جائز ٹھہرایا ہے۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تنازع روس، یوکرین اور یورپ کے لیے نقصان دہ ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔‘آخرکارعالمی نظام پر دیرپا اثرات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ جنگ کس طرح ختم ہوتی ہے اور امن کیسے نافذ کیا جاتا ہے بجائے اس کے کہ اس نتیجے تک کیسے پہنچا جاتا ہے۔‘