ملاحظات،: (مولانا)عبدالحمید نعمانی
گزشتہ کچھ دنوں سے ہندوتو وادی سوچ والے عناصر، معروف مسلم شخصیات اور داعیان حق صوفیاء کرام کو مکروہ شکل میں پیش کر کے ان سے ہندستانی ہندو مسلم عوام و خواص کی ان سے عقیدت و وابستگی کوختم کرنے کی منصوبہ بند مہم چلا رہے ہیں، وہ مسلم حکمرانوں، محمود غزنوی، علا۶ الدین خلںجی، بابر، اورنگزیب، ٹیپو سلطان وغیرہم کے نام پر تو اپنی فرقہ وارانہ سیاست کر رہے تھے لیکن ان کو لگا اتنا بھر سے بات نہیں بنے گی تو اب اس کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے معابد و ماثر سے مسلمانوں کو الگ اور بے دخل کرنے کے ساتھ صوفیاء، سالار مسعود رح، خواجہ اجمیری رح جیسے بزرگوں کو بھی مکروہ شکل میں پیش کر کے یہ باور بھی کرانا ضروری ہے کہ وہ سماج کے کوئی بہتر اور نمونے کے کردار نہیں ہیں، گزشتہ کچھ دنوں سے منقسمہ غیر منقسمہ بھارت کی معروف شخصیات حضرت خواجہ اجمیری رح، صابر کلیری رح وغیرہم سے بھی پہلے کے رہنما کردار سالار مسعود رح ہندوتو وادی سوچ والوں کے نشانے اور تنقید و تنقص کی زد پر آگے ہیں، اس میں اقتداری و ُانتظامیہ گروپ کے لوگ زیادہ۔ پیش پیش ہیں، گزشتہ دنوں جب سنبھل جامع مسجد کی جگہ ہرہری مندر بتا کر بابری مسجد کی تاریخ دہرانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو سالار مسعود رح کو بھی مکروہ شکل اور ظالم، مجرم، لٹیرے کے روپ میں پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی، ملک کے مختلف حصوں خصوصا یوپی کی کئی ساری جگہوں کے علاوہ سنبھل میں ہونے والے نیزہ میلے اور چند دنوں پہلے بہرائچ کے جیٹھ میلے پر روک لگانے کی کوشش کے تحت یہ بتایا گیا کہ یوگی سرکار نے اس پر پابندی سناتن تہذیب کے تحفظ کے لیے لگائی ہے، یوپی کے وزیر اعلی، سالار مسعود رح کے تناظر میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ کسی حملہ آور کی تحسین و توقیر قابل قبول نہیں ہے، ،سالار مسعود کے نام پر کسی تقریب کا انعقاد کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے، انھوں نے راجا سہیل دیو(شہر(زیادہ صحیح سہر دیو ہے )کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے سومناتھ مندر کے مجرم سالار مسعود کو قتل کیا اور بہرائچ میں اس کے مقبرہ کو عزت نہیں دی گئی، دقت یہ ہے کہ سیاسی لوگ مورخ کے کردار میں آگئے ہیں، کریلہ نیم چڑھا یہ ہے کہ ہندوتو وادی تاریخ بتا رہے ہیں، جب کہ ان کو قدیم دور سے تاریخ سے کوئی لگاؤ نہیں رہا ہے، تمدن ہند کے مصنف لیبان نے لکھا ہے کہ تاریخ کے لیے ہندوؤں کا دماغ ناموزوں معلوم ہوتا ہے اس پر مورخ علامہ سید سلیمان ندوی رح نے تبصرہ کیا کہ تاریخ وہ فن ہے جس کی طرف قدیم ہندوؤں نے کبھی توجہ نہیں کی،( خدا بخش جرنل صفحہ 476،شمارہ 63تا68،1991)
گزشتہ دنوں سے کچھ ہندوؤں نے توجہ دی ہے لیکن ہندوتو وادی عموما تاریخ سے دور ہی نظر آتے ہیں، وہ کچھ بھی دعوے کر دیتے ہیں جس کا باقاعدہ کوئی مستند حوالہ نہیں دیتے ہیں، یہ ٹی وی مباحث میں بار ہا تجزیہ و مشاہدہ بھی ہوتا رہا ہے، سالار مسعود رح کے متعلق بھی بغیر ثبوت کے باتیں کی جا رہی ہیں، دستیاب تاریخ میں سالار مسعود ایک صوفی داعی کے کردار میں نظر آتے ہیں، ان کو شہادت سے لے کر اب تک ہندو مسلم دونوں میں عزت و عقیدت کا درجہ و مقام حاصل رہا ہے ،محمود غزنوی کے سترہ حملے اور دیگر جنگوں میں سالار مسعود کا کہیں نمایاں کردار نظر نہیں آتا ہے، حتی کہ سومناتھ مندر پر حملے اور اس کی دولت کو لوٹنے میں بھی سالار مسعود کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا ہے، اس وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ 11سال تھی، محمود غزنوی کے ساتھ فوجی مہم میں بڑی تعداد میں ہندو فوجی بھی شامل تھے، غزنی میں ان کے لیے مندر بھی بنائے گئے تھے، سب باتوں کو نظرانداز کر کے سالار مسعود رح کو مکروہ شکل میں پیش کرنے کے پس پشت کئی قسم کے مقاصد و عزائم کار فرما ہیں، ان کو جاننا سمجھنا بہت ضروری ہے، سالار مسعود کے تعلق سے عام ہندوؤں کے قتل عام اور لوگوں کے مال و عزت لوٹ لینے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ،بلکہ سالار مسعود رح نے دبے کچلے، راجاؤں کی زیادتی و نا انصافی کے شکار ہندو عوام کو راحت و نجات دلانے کا کام تھا، اسی لیے آج بھی ان کے مزار پر بڑی تعداد میں ہندو حاضر ہوتے ہیں، اس سلسلے میں کئی حوالے سالار مسعود کے حالات زندگی پر مشتمل کئی کتابوں کے علاوہ عبدالرحمن چشتی کی فارسی میں لکھی کتاب، مراۃ مسعود رح میں ملتے ہیں، انھوں نے عام حکمرانوں کے برعکس ہندو کسانوں اور چودھریوں کی طرف سے پیشکش کے باوجود مفت میں غلہ لینے سے انکار کر دیا تھا اور قیمتا لیا تھا، ،اس تناظر میں سالار مسعود رح کو لٹیرے بتانے کی کوشش سرار شرارت اور جھوٹ پر مبنی ہے، سہیل دیو پارٹی کے اوم پرکاش راجبھر ہوں یا یوپی حکومت کے کابینی وزیر انل راجبھر ہوں یا سنبھل کے سابق ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سریش چندرہوں یا وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ ہوں، ان میں سے کوئی بھی تاریخ کا صحیح جانکار و ماہر نہیں ہے، لیکن دعوے بڑے بڑے کیے جاتے ہیں، سریش چندر کا کہنا ہے کہ سالار مسعود رح لٹیرا تھا تاریخ کے مطابق وہ حملہ آور اور محمود غزنوی کا کمانڈر تھا، اس نے سومناتھ کو لوٹا اور ملک میں قتل عام کروایا ، یہاں کسی لٹیرے کی یاد میں کوئی تقریب منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے اگر ایسا کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اگر تم ایسے لٹیرے کی یاد میں میلے لگاتے ہو تو تم غدار ہو،
ظاہر ہے کہ یہ جارحانہ تنقید و تبصرے غلط مطالعہ تاریخ پر مبنی ہے، سریش چندر نے تاریخ کے نام پر سالار مسعود رح کو محمود غزنوی کا کمانڈر ، ملک میں قتل عام کروانے والا قرار تو دے دیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ایسا تاریخ کی کوئی مستند کتاب میں ہے، تاریخ کے نام پر تاریکی پھیلانے والے کبھی حوالہ نہیں دیتے ہیں، یوگی جی کہتے ہیں کہ راجا سہیل دیو نے سالار مسعود غازی کے مقبرے کو کبھی کوئی عزت نہیں دی تھی، سہر دیو کی طرف سے سالار مسعود رح اور ان کے مزار کو عزت نہ دینے کی بات کوئی زیادہ قابل توجہ و با معنی نہیں ہے، کیوں کہ جس دن شام کو سالار مسعود کو سہر دیو نے ایک ٹیلے کی آڑ سے تیر مار کر شہید کردیا تھا اس کے دوسرے دن صبح کے وقت سالار مسعود کے قیام گاہ کے محافظ سید ابراہیم نے سہیل دیو کا آمنے سامنے کی جنگ میں سر تن سے جدا کر دیا تھا، اسے راج پاٹ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا، کسی ہندو راجا کو،سہیل دیو سمیت اکیلے، سالار مسعود سے جنگ کی جرآت و ہمت نہیں ہوئی تھی، 21راجاؤں کی متحدہ افواج کو دو بار سالار مسعود نے شکست دی تھی، جب کہ تھوڑے سے افراد سالار کے ساتھ تھے، باقی لوگ دعوت دین کے لیے مختلف علاقوں میں گئے ہوئے تھے، 21راجاؤں کی افواج نے حملہ کر کے سالار مسعود کو گھیر کر شہید کردیا تھا، لیکن جنگ سے ہندو راجاؤں کا کوئی مقصد سامنے نہیں آتا ہے، سوائے اس کے کہ ان کی روایتی تنگ نظری سامنے آتی ہے کہ ہم علاقے میں تمہیں رہنے نہیں دیں گے،
ہندو راجاؤں نے سالار مسعود رح کی پر امن صلح کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا، سالار مسعود رح نے کسی راجا یا اس کی حکومت پر حملہ نہیں کیا تھا، ان کو صرف دعوت دین سے دلچسپی تھی، اس میں جو غلط رکاوٹ ڈالتا تھا اس سے اپنی آزادی کے لیے جنگ و جہاد کرتے تھے، یعنی صرف دفاع کرتے تھے، اس سلسلے میں پوری بات کہنے کے بجائے بیچ سے بات کی جاتی ہے کہ سالار مسعود کو جنگ میں راجا سہیل دیو نے مار دیا تھا، ایسا کیوں کیا، اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا ہے، سالار مسعود رح نے علاقے کے نہ کسی مندر کو منہدم کیا تھا، نہ کسی مورتی کو توڑا تھا، سورج کنڈ تالاب پر ایک پتھر تھا، جس پر سورج کا نقشہ و شبیہ تھی، نہ کہ کوئی مندر، یہ بالکل بے بنیاد دعوی ہے کہ مندر توڑ کر مسجد یا مزار کی تعمیر کی گئی ہے، جب ایک سپاہی نے مورتی توڑنے کی بات کی تو سالار نے سختی سے منع کر دیا تھا، انل راجبھر کا کہنا ہے کہ سورج مندر کو گرانے والے حملہ آور کے نام پر میلے کا انعقاد ، عوامی جذبات کے خلاف ہے، یہ دعوی بے بنیاد ،غیر تاریخی اور گزشتہ کچھ مدت کی پھیلائی ہوئی افواہ بر مبنی ہے ، سالار کا واضح طور سے کہنا تھا کہ جب لوگ ہماری پر امن دعوت توحید کو قبول کر لیں گے تو سب بدل جائے گا، سالار مسعود رح پر ہندو خواتین کی بے حرمتی کا الزام جیسا کہ یوگی جی نے لگایا ہے، پوری طرح بے بنیاد ہے، انل راجبھر جیسے لوگ، سالار مسعود پر سناتن تہذیب کو مٹانے اور اس پر حملے کے الزامات بھی لگاتے ہیں، لیکن ان کا ثبوت پیش نہیں کیا جاتا ہے، یوگی، راجبھر مثال اور تعین کے ساتھ یہ بھی نہیں بتاتے ہیں کہ سناتن تہذیب کیا ہے، جس پر سالار مسعود رح نے حملہ کیا تھا، اگر بہرائچ میں سالار مسعود کا مزار، غلامی کی علامت ہے تو وہ ہندوؤں کے لیے مرکز عقیدت کیسے بنا ہوا ہے، کچھ لوگ، مورخ بن کر سالار مسعود رح کو فرضی کردار باور کرانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، تو پھر سہیل دیو نے شہید کس کو کیا تھا اور بہرائچ میں موجودہ مزار کس کا ہے، اس کا صاف جواب ،بہو گنا جیسے لوگوں کے پاس نہیں ہے، ان کو عبدالرحمن چشتی کی 1620 میں لکھی کتاب، مراۃ مسعودی اور اس کی پیش کردہ تفصیلات پر یقین نہیں ہے کہ وہ 600 سال بعد میں لکھی گئی ہے، لیکن 1291 میں لکھے امیر خسرو کے خطوط کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جن میں سالار مسعود کا ذکر خیر ہے، ابن بطوطہ بھی قدیم مصنف ہے جس نے سالار اور ان کے مزار کا ذکر کیا ہے، فرقہ پرست عناصر جس رنگ میں سالار مسعود کو پیش کر رہے ہیں وہ ان پر سراسر نامسعود و منحوس حملے کے ذیل میں آتا ہے ،اسی طرح مسلم سماج کے کچھ تجدد پسند افراد کا مذہب پسندی کے الزام سے بچنے کے لیے سالار مسعود جیسی شخصیات کو غلط رنگ میں پیش کرنا بھی ایک غیر پسندیدہ اور نامحممود عمل ہے،