امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ معاہدے اور غزہ میں باقی رہ جانے والے تمام مغویوں کی واپسی کی ضرورت پر زور دینے کے ایک روز بعد … اخبار "ٹائمز آف اسرائیل” نے ایک امریکی عہدے دار اور ایک عرب سفارت کار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹیجک امور، رون دیرمر، اس ہفتے واشنگٹن میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے معاہدہ کرنے کے سلسلے میں دباؤ کا سامنا کریں گے۔
ذرائع کے مطابق ثالثی ممالک چاہتے ہیں کہ اسرائیل ایک وفد قاہرہ بھیجے تاکہ کئی امور پر باقی رہ جانے والے اختلافات کو ختم کیا جا سکے، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایسا کرنے سے گریز کیا اور اس کے بجائے دیرمر کو واشنگٹن بھیجنے کو ترجیح دی، تاکہ مصر میں بالواسطہ مذاکرات کے ایک اور دور سے پہلے امریکا کے ساتھ ہم آہنگی حاصل کی جا سکے۔
***جنگ بندی یا جنگ کا مکمل خاتمہ؟
ان دونوں ذرائع کے مطابق سب سے اہم اختلافی نکتہ یہ ہے کہ حماس جنگ کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے، جب کہ اسرائیل صرف ایک عارضی جنگ بندی چاہتا ہے، تاکہ حملے دوبارہ شروع کرنے کا راستہ کھلا رہے۔اسی طرح حماس، عرب ثالثوں کی حمایت سے، یا تو انسانی امداد کی تقسیم کے پرانے نظام کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہے یا پھر موجودہ نظام کی جگہ ایک نیا نظام قائم کرنے پر زور دے رہی ہے، موجودہ نظام "غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن” کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ اسے اسرائیل اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔اسرائیل، حماس پر انسانی امداد پر قبضہ کرنے کا الزام لگاتا ہے، جس کی تردید حماس ہمیشہ کرتی رہی
غذائی مدد یا موت کا پھندا
اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے سیکڑوں فلسطینی اس وقت شہید ہوئے جب وہ انسانی امداد حاصل کر رہے تھے، اور وہ امدادی نظام بین الاقوامی تنظیموں کے نزدیک "موت کا پھندا” کہلایا۔عرب ثالثوں کو امید تھی کہ اسرائیل اتوار کی رات دیر گئے منعقد ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی حکومتی اجلاس کے دوران قاہرہ وفد بھیجنے پر رضامند ہو جائے گا، لیکن "ٹائمز آف اسرائیل” کے مطابق یہ اجلاس بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گیا۔عرب سفارت کار نے کہا کہ "ثالثی ممالک اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ رواں ماہ 13 جون کو دوحہ ایک وفد بھیجے تاکہ وہ مصر اور قطر کی تیار کردہ مفاہمتی تجاویز پر بات چیت کرے، جن کا مقصد امریکی نمائندے اسٹیو وٹکوف کی تازہ ترین پیشکش کو حماس کے جواب کے ساتھ یکجا کرنا تھا۔”