نیتی تال :
اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ہری دوار ضلع میں مذبح خانوں پر روک لگانے کے فیصلے کی آئینی جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ تہذیب کا اندازہ اقلیتوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کی بنیاد پر کیاجاتاہے ۔
ہری دوار ضلع میں مذبح خانے پر روک لگانے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے منگلور قصبے کے رہنے والے عرضی گزار کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس آر ایس چوہان او ر جسٹس آلوک کمار ورما کی بنچ نے کہاکہ ’’ جمہوریت کامطلب ہے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت‘، تہذیب کا اندازہ صرف اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے اور ہری دوار جیسی پابندی سے سوال اٹھتا ہے کہ ریاست کس حد تک شہریوں کے متبادلوں کو طے کرسکتی ہے ۔‘
درخواست میں کہاگیاہے کہ پابندی عوام کے حقوق، زندگی کے حقوق، آزادی سے اپنے مذہبی رسم ورواج پر عمل آوری کے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے ۔ یہ ہری دوار میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے جہاں پر منگلور جیسے قصبے میں بڑی مسلم آبادی رہتی ہے ۔
درخواست میں کہا گیا ہے ، ’ہری دوار میں دھرم اور ذات کی حدور سے قطع نظر صاف اور تازہ گوشت کھانے سے ممانعت امتیازی سلوک جیساہے ۔
غورطلب ہے کہ اس سال مارچ میں ریاستی سرکار نے ہری دوار کو ’سلاٹر فری زون‘ اعلان کردیا تھا اور مذبح خانوں کے لیے جاری کیے جانے والےنو آبجیکشن لیٹر کو منسوخ (این او سی )کردیاتھا۔
عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ پابندی ’ من مانی اور غیر آئینی ‘ ہے ۔ عرضی میں اس فیصلے کو دو وجوہات سے چیلنج دیا گیاہے۔ اس میں کہا گیا ہےکہ گوشت پر کسی طرح کی مکمل پابندی غیر آئینی ہے ،جبکہ اترپردیش میونسپل کارپوریشن ایکٹ میں اتراکھنڈ سرکار کے ذریعہ جوڑی گئی دفعہ 237A، اسے میونسپل کارپوریشن ،کونسل یا نگر پنچایت کو’ مذبح سے پاک ‘ اعلان کرنے کا اختیار فراہم کرتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ عرضی میں ’ سنگین بنیادی سوالات‘ اٹھائے گئے ہیں اور اس میں آئینی حوالے شامل ہیں۔عدالت نے کہا کہ اسی طرح کے معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ ’ گوشت پر پابندی کسی پر بھی تھوپانہیں جانا چاہئے ، صرف آپ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی گوشت کااستعمال نہیں کریں۔‘
اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے ، ہائی کورٹ نے تبصرہ کیا کہ ’ سوال یہ ہے کہ کیا شہریوں کو اپنے کھانے کومنتخب کرنے کا حق ہے یا ریاست اس کا فیصلہ کرے گی۔؟
عدالت نے حالانکہ کہا کہ یہ آئینی معاملہ اور تہوار کو دیکھتے ہوئے سماعت میں جلد بازی نہیں کی جاسکتی ۔ اس نے کہاکہ اس معاملے میں مناسب سماعت اور غوروخوض کی ضرورت ہے اس لئے اس معاملے پر فیصلے بقرعید تک کرنا ممکن نہیں ہے جو 21 جولائی کو پڑ رہاہے ۔ عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 23 جولائی کی تاریخ طے کی ہے۔