تجزیہ ؛شکیل اختر
مسجد تو ٹوٹ کر ہی رہے گی۔ ہم نہیں چاہتے کا باہر سے مسلمان یہاں آئیں اور دنگے فساد کریں۔ ہم یہاں کے مقامی باشندے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ لوگ ہمیں ماریں۔‘
یہ کہنا تھا شمالی انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں بدھ کے دن ہونے والے مظاہرے میں شریک ایک خاتون کا جو اپنے علاقے میں واقع ایک مسجد سے جڑے تنازع پر اپنی رائے کا اظہار کر رہی تھیں۔ مقامی ہندو تنظیمیں اس پرانی مسجد کو ’غیرقانونی‘ قرار دے رہی ہیں جبکہ مقامی وقف بورڈ کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد اُن کی ملکیت ہے اور مکمل طور پر قانونی ہے۔
اس مسجد کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیے ایک کیس مقامی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ تاہم اس کے باوجود گذشتہ ایک ہفتے سے سینکڑوں ہندو افراد مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس مسجد کو گِرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ اِس مسجد میں ’غیر قانونی تارکین وطن بھی قیام کرتے ہیں اور ریاست کو چاہیے کہ وہ باہر سے آنے والے ان افراد کی جانچ پڑتال بھی کرے۔‘ واضح رہے کہ ہماچل پردیش میں اپوزیشن جماعت کانگریس کی حکومت ہے۔
تاہم یہ تنازع ایک مسجد تک محدود نہیں بلکہ شمالی انڈیا میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران مسلمان مخالف واقعات اور رویوں میں اضافہ اور شدت دیکھنے کو ملی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ماضی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اس نوعیت کی کشیدگی کم ہی دیکھی جاتی تھی۔
شمالی انڈیا کے کسی علاقے میں مسجد کے قانونی یا غیرقانونی ہونے کا تنازع ہے تو کہیں دُکان پر نام لکھنے کا جھگڑا، کہیں مسلمانوں پر ’لوو جہاد‘ کا الزام عائد ہو رہا ہے تو کہیں گاؤں میں اُن کے داخلے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔
ہماچل پردیش کے ساتھ ساتھ اُتراکھنڈ میں بھی پیش آنے والے ایسے واقعات کے بعد یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ شمالی انڈیا کی ریاستوں میں اس نوعیت کے واقعات میں شدت آنے کی وجوہات کیا ہیں اور یہ بھی کہ کیا ان معاملات کو بنیاد بنا کر سیاست تو نہیں کھیلی جا رہی؟
شملہ کی مسجد کا تنازع ریاستی اسمبلی میں بھی زیر بحث رہا، جہاں ایک وزیر انیرودھ سنگھ نے بھی اس مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسے گِرا دیا جانا چاہیے۔‘
ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین اسمبلی نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی۔ بی جے پی رہنما جے رام ٹھاکر کا کہنا تھا کہ ’اس مسجد میں غیر قانونی تعمیر کے خلاف 2010 میں ہی میونسپل کارپوریشن میں شکایت درج کروائی گئی تھی لیکن کارروائی نہیں ہوئی۔ اب وہاں چار منزلوں سے بھی زیادہ اونچی عمارت تعمیر کی جا چکی ہے۔ یہ غیر قانونی ہے، اسے گِرانا چاہیے۔‘
اُدھر گذشتہ دنوں اُتراکھنڈ ریاست کے رودر پریاگ ضلع کے کئی دیہات میں مقامی ہندو تنظیموں کی جانب سے ایسے بورڈ آویزاں کر دیے گئے تھے جن پر لکھا ہوا تھا کہ ’روہنيگیا مسلمانوں، غیر ہندوؤں اور پھیری لگانے والوں کو گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور اگر انھیں گاؤں میں پایا گیا تو انھیں سزا دی جائے گی۔‘
آئندہ چند ہفتوں میں انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاوہ ہریانہ اور چند دیگر ریاستوں میں اہم انتخابات ہونے والے ہیں اور بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر میں اچانک شدت کا ایک اہم سبب انتخابات سے پہلے ووٹر کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا بھی ہے۔
اتراکھنڈ ریاست کے مقامی صحافی آصف علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہو کہا کہ ’ریاست کی بی جے پی حکومت ایسا کچھ کر نہیں سکی جسے وہ عوام کے سامنے کامیابی کے طور پر پیش کر سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ابھی کچھ دن پہلے ریاستی اسمبلی کی دو خالی سیٹوں کے لیے انتخاب ہوا اور دونوں میں بی جے پی ہار گئی تھی۔ اب ریاست کی کیدارناتھ سیٹ پر ضمنی اننتخاب ہونا ہے جو ہندوؤں کا ایک بہت اہم مقدس مقام ہے، اگر بی جے پی یہاں سے بھی ہار گئی تو اس کے لیے سیاسی پیچیدگیاں بڑھ جائے گی، وہ ہر قیمت پر اس سیٹ کو جیتنا چاہتی ہے۔‘
’اس سیٹ سے جیتنا یہاں کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم مودی دونوں کے لیے وقار کا سوال ہے۔‘ ایسے میں ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تحریک سے بی جے پی کو انتخابی فائدہ ہو سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار راجیش جوشی کا کہنا ہے کہ ’بی جے پی مئی کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سکتے کی حالت میں تھی، اب وہ دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو حاصل کرنے کے لیے بیتاب ہے اور ایک بار پھر سخت گیر ہندوتوا کے نظریے کی طرف لوٹ رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جس طرح پہلے گجرات ہندوتوا کی لیبارٹری ہوا کرتا تھا، اب اتراکھنڈ ہندوتوا کی لیبارٹری بن گئی ہے.
ریاست کے گاؤں گاؤں میں ہندو مسلم کی تقسیم کر دی گئی ہے، جہاں جہاں مسلمانوں کی دکانیں ہیں اُن سے کہا جاتا ہے کہ وہ خالی کر دیں، ریاست میں ہزاروں مزارات کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے جس کے باعث اب وہ وہ مسجدیں بنائیں گے، خواتین کو چھیڑیں گے، یہ ایک منظم مہم ہے۔‘راجیش جوشی کا کہنا ہے کہ جو تنطیمیں اس مہم میں شامل ہیں وہ اقتصادی طور پر مسلمانوں کی کمر توڑ دینا چاہتی ہیں۔
’اس سے پہلے گجرات، مدھیہ پردیش اور ہریانہ کے قصبوں اور دیہات میں باقاعدہ کال دی جاتی تھی کہ مسلمانوں کی دکانوں سے سامان نہ خریدیں، انھیں کام نہ دیں، وہ لوو جہادی ہیں۔ یہ ایک منظم اور سوچا سمبجھا منصوبہ ہے تاکہ مسلمانوں خاص طور سے غریب مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جائے۔‘تاہم راجیش جوشی کا کہنا ہے کہ ’ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس منصوبے میں وہ کچھ حد تک ہی کامیاب ہو پا رہے ہیں۔‘
(بشکریہ بی بی سی ،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )